328

کیا یکساں نصاب تعلیم ممکن ہے

گزشتہ روز کوسمو پولیٹن کلب میں “کیا یکساں نصاب تعلیم ممکن ہے” کے عنوان پر ایک سیمینار ہوا۔ جس کی صدارت کوسمو پولیٹن کلب کے صدر ڈاکٹر افتخار بخاری نے کی۔ مہمان خصوصی ایچ ای سی کے سابق صدر نشین ڈاکٹر نظام الدین تھے۔ اس فکر انگیز نشست کے منتظم ضمیر آفاقی اور روزنامہ مشرق کے مدیر سہیل اشرف تھے ۔نظامت ڈاکٹر راشد محمود نے کی۔ مقررین میں پروفیسر اکرار’ محترم حنیف انجم ‘ پاکستان قومی زبان تحریک کی رہنما فاطمہ قمر’ لاہور پریس کلب کے سابق صدر شہباز میاں تھے۔ یہ ایک فکر انگیز مکالمہ تھا۔جس میں نجی تعلیمی اداروں کے منتظم بھی شامل تھے۔ جس میں کچھ مقررین نے کہا کہ ذریعہ تعلیم اہمیت نہیں رکھتا۔ کوالٹی اف ایجوکیشن بہتر بنانا ہوگا۔ لیکن جب خاکسار نے پوچھا کہ کوالٹی اف ایجوکیشن تو موجودہ نسل کو ماضی سے بہترین مل رہی ہے۔ اج کے بچے اے سی کمروں میں بیٹھ کر ‘ برگر پیزے کھا کر تعلیم حاصل کررہے ہیں۔اس کوالٹی اف ایجوکیشن بہتر ہونے سے ملک کو کیا حاصل ہے۔۔تمام مہنگے اعلی تعلیمی ادارے والدین سے بھاری فیسیں وصول کرنے والے دعوی یہی کرتے ہیں کہ ان کے ادارے میں رٹا نہیں لگوایا جائے گا لیکن ذریعہ تعلیم انگریزی ہونے کی وجہ سے تمام تعلیم ہی رٹا ہے۔ فاطمہ قمر نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے بغیر یکساں نصاب تعلیم کا نعرہ محض ‘ دھوکا ہے’ فرق
فراڈ ‘ نوسر بازی اور جعلسازی ہے۔ پوری دنیا میں سب سے پہلے ذریعہ تعلیم کی بات کی جاتی ہے اس کے بعد کوالٹی اف ایجوکیشن پر بات ہوتی ہے۔ اگر تعلیم اپنی زبان میں ہوگی ‘ تو پھر کمرہ جماعت’ اےسی ‘ دیگر سہولیات بے معنی ہوجاتی ہیں بچہ درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کر بھی شوق سے علم حاصل کرے گا۔ اگر یکساں نصاب تعلیم میں ذریعہ تعلیم کی اہمیت نہیں ہے تو والدین سےتعلیم کے نام پر بھاری فیسیں وصول کرنے والے اس ملٹی نیشنل تجارتی دور میں ( کثیرالقومی) اپنے ادارے ترکی’ فرانس’ جاپان ‘ ایران ‘ کوریا میں کھولے۔۔ وہاں جاکر کہیں کہ ائندہ اپ کے بچے صرف انگریزی میں بات کریں گے۔۔اپنی قومی و مادری زبان میں بات کرنا تعلیمی درس گاہ میں ممنوع ہے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اس ملٹی نیشنل دور میں ان نام نہاد پاکستانی”بین الاقوامی زبان” میں تعلیم دے کر ان کے نونہالوں کو گونگا بہرا کرنے والوں کے ساتھ ان کی عوام کیا سلوک کرتی ہے؟
اس تقریب کے صدر ڈاکٹر افتخار بخاری نے کہا کہ اس نشست کا عنوان اتنا وسیع ہے جو ایک نشست میں نہیں سمٹ سکتا ۔۔اس کو کم اذکم تین نشستوں میں کیا جائے۔اور وہ ان نشستوں کے میزبان بننے کےلئے حاضر ہیں ۔
ہم اس نشست کے منتظم ضمیر آفاقی ‘ اور اشرف سہیل کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے ہمیں اس تقریب میں بطور خاص مدعو کیا۔۔ائندہ اگر وہ یکساں نصاب تعلیم پر ڈاکٹر افتخار بخاری کی سفارش پر کوئی سہہ روزہ نشست رکھیں تو اس میں پاکستان قومی زبان تحریک کو خصوصی نمائندگی دے۔اس لیے کہ یکساں نظام تعلیم کے موقف کے لئے لڑنے والی پاکستان قومی زبان تحریک ہے جو گزشتہ بارہ سال سے دن رات پاکستان میں نفاز اُردو کی جنگ لڑ رہی ہے۔ تحریک کی کوششوں سے پاکستان کی ننانوے فیصد عوام نفاذ اردو پر یکسو ہوچکی ہے۔

فاطمہ قمر پاکستان قومی زبان تحریک

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں