✍️ سید لبید غزنوی
ماہر نفسیات کہتے ہیں محبت کی ایک خاص عمر ہوتی ہے ، اور یہ عمر کوئی بہت لمبا عرصہ نہیں بلکہ انتہائی قلیل مدت ہے جو پلک جھپکتے گزر جاتی ہے اور یہ تقریباً اٹھارہ ماہ پر محیط ہے اس مدت کے گزر جانے کے بعد محبت نہیں بس ضد باقی رہ جاتی ہے۔ جب محبت کے سمندر میں غوطہ زن انسان یہ دیکھتا ہے کہ جس کی محبت میں وہ حالات کی تندو تیز لہروں کے سامنے سینہ سپر تھا ، جس راحتِ جاں کا وہ اتنا خیال کرتا تھا اور اپنا سارا وقت اس کے لیے خرچ کرتا تھا ، آج وہ شخص طوطے کی طرح آنکھیں پھیر کر کسی نئے نشیمن کی طرف اڑان بھرنے کو ہے تو انسان ضد پہ آجاتا ہے ، کیونکہ اس پر اس نے انویسٹیمنٹ کی ہوتی ہے ، اپنی محبت کی ، اپنے احساسات و جذبات کی ، اپنے مال و متاع اور وقت کی ، اور ساری کی ساری توجہ اور توانائیوں کی ، جب نتیجہ ڈھاک کے تین پات نفی میں دکھتا نظر آئے تو بس ضد پکڑ لیتا ہے ، اب یہ خوش گلو پرندہ محبت کسی اور جانب اڑان بھرے تو بھرے کیوں ؟ یہ مجھے ہی چاہیے اور یہ بس میرا ہی ہے۔
مگر میں اس حوالے سے اگر اپنے محسوسات بیان کروں تو کہنا چاہوں گا ، محبت نام ہے ایک خوبصورت احساس کا ، اور یہ احساس ہمیشہ زندہ رہتا ہے اسے موت نہیں آتی ، یہ تو خود رو اور منہ زور جذبوں کی وہ لافانی داستان ہے جس میں کردار و اداکار و فنکار بدلتے رہتے ہیں ، محبت کبھی بھی کسی سے بھی ہوسکتی ہے ، فیصلے اپنے حق میں لینے کے لیے محبت کے رشتے کو پاکیزگی بشکل نکاح دینا از حد ضروری ہے ، تبھی محبتیں زندہ رہتی ہیں ، ناپاک محبت بہت جلد ازیت ناک موت مر جاتی ہے ، اس محبت کے رشتوں کو پاکیزگی دو ، کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے محبوب کی جدائی کے جیم کو بھی نہیں چکھا اور دعویٰ کرتے ہیں مجھے اپنے محبوب سے محبت نہیں عشق ہے .
جانتے ہو عشق کیا ہے؟ عشق میں روشنی نہیں ہوتی سیاہی ہوتی ہے ، عشق کالا سیاہ ہوتا ہے ، عشق اول و آخر درد کا سمندر ہے ، عشق محبت کی انتہا ہے ، جس کی کلیات و جزئیات سے ہر کوئی آشنائی نہیں پا سکتا ، یہ تو وہ آگ ہے جو ہر بھٹی میں سلگائی نہیں جاتی ، ہر بھٹی اس کی حدت و شدت برداشت کرنے کی طاقت ؤ قوت نہیں رکھتی ، عشق حاصل نہیں بلکہ لاحاصل کے پیچھے بھاگتے بھاگتے دم توڑنے کا جنون ہے ، یہ تو خواہش ناتمام ہے ، صاحب عشقِ و مستی کے مستانے دعوے دار جانتے ہو عشق کا تو جنم ہی جدائی کی کوکھ سے ہوتا ہے ، عقل و دانش کے چند حسین حُلوں نے تمہارے بھی تو دریچہ دل پر دستک دی ہو گی انہیں زیر استعمال لاؤ اور مجھے بتاؤ۔۔۔! بھلا جدائی بھی کبھی راحت دے سکتی ہے ؟ نہیں نہیں ساحل پہ کھڑے سمندر کے تلاطم کی خبر دینے والے بے خبر تجھے کیا خبر ؟ بیچ اتر تجھے پتہ چلے ، جدائی راحت نہیں درد دیتی ہے ، جب یہ درد لہو بن کرجسم میں رواں ہوتا ہے نا تو پھر کوئی امید باقی نہیں رہتی ، علامہ و فطامہ و فہامہ بنے بیٹھے ہو کبھی آگ لگی دیکھی ہے ، آگ کا کام جلانا اور راکھ بنانا ہے ، لیکن عشق وہ آگ ہے جو جلائے تو راکھ نہیں کرتا بلکہ فنا کر دیتا ہے ، عشق میں انسان اپنے محبوب کے ہجر میں جلتا رہتا ہے ، کچھ لوگوں کا عشق انتہا کو پہنچتا ہے تو وہ موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔
اک اور بھی رخ ہے حضرت انسان کا ، اک اور منظر ہے داستانِ عشق و محبت کا ، اک وہ بھی شخص ہے اس لازوال مگر شہر خونچکاں و خموشاں کا باسی ، جو محبت میں زمینی خداؤں سے مات کھا کر ، حالت بے بسی و بے کسی میں مجبور ہو مہجور ہو کر سبھی کچھ خدا پہ چھوڑ دیتا ہے ، پھر ایسے کو اللہ اپنی پناہ میں لے لیتا ہے ، اور بے شک ایسا کرنے والوں کا اللہ ہی مددگار ؤ غم گسار ہوتا ہے ، نماز پڑھے تو نماز اسے سکون دیتی ہے ، عبادت میں راحت نصیب ہوتی ہے اور یہی عشق حقیقی ہے ، ابن آدم تو بھول مت تیرا مقصد کیا ہے ؟ جنت جو تیرا اصل دیس ہے وہاں سے دیس نکالا تجھے کیوں دیا گیا ہے ؟ یہ زندگی تو تیرے لیے رحمت ہے ، موقعہ ہے ، لوٹ جا اپنے رب کی جانب بے شک سب کچھ فنا ہونے والا ہے۔
