تحریر:محمد شاہد اقبال
تضاد معنوی اعتبار سے منفی جذبہ کی نشاندہی کرتا ہے لیکن کچھ لوگ تضاد کو ایسی رکاوٹ سے تشبیہ دیتے ہیں جو انسان کو آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔ اس پر سیر حاصل بحث کی جا سکتی ہے لیکن یہ ہمارا موضوع نہیں ہے اس لیے اسے یہیں چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔ شخصیت کا تضاد بہرطور ایک منفی خاصیت ہے جسے کسی بھی طرح سے جائز یا مثبت قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ شخصی تضاد انسان کی خود اپنی ذات کے ساتھ ساتھ بہرحال معاشرے میں بھی بے چینی اور بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔

پچھلی شام ایک دوست کی طرف افطار پارٹی کی دعوت پر جانے کا اتفاق ہوا وہاں میرے علاوہ اس کے کچھ عزیز اور چند دیگر احباب بھی مدعو تھے۔ میرا یہاں کسی کی ذات پر تنقید کرنا یا خود کو ارفع ظاہر کرنا ہرگز ہرگز مقصد نہیں ہے البتہ قول و فعل میں تضاد کی نشاندہی ضرور ہے جو دراصل معاشرے میں موجود بے چینی اور مسلسل بگاڑ کی ایک بڑی وجہ ہے۔
افطار کے وقت تک ملی جلی کیفیت رہی زیادہ تر وقت خاموشی کا راج رہا۔ افطار کرتے ہی جیسے مردہ اجسام میں جان پڑ گئی ہو ۔ ایک دوسرے سے تعارف کا سلسلہ چلا جو موجودہ ملکی سیاسی و معاشی حالات کی طرف مڑ گیا۔ یہ موضوع ہم پاکستانیوں کا ایسا محبوب ہے کہ اس پر ایک عام بندہ بھی دل کھول کر دھواں دار تقریر کر سکتا ہے۔ جہاں بھی دو تین لوگ اکٹھے ہوتے ہیں وہیں پر یہ بحث شروع ہو جاتی ہے کہ موجودہ حکومتی سیٹ اپ نا اہل ہے یا سابقین اس نہج پر پہنچا گئے تھے کہ باوجود ہزار کوشش کے ابھی تک بھی ملک کی سمت درست نہیں کی جا سکی۔

اس بے نتیجہ اور نہ ختم ہونے والی گفتگو میں میزبان دوست کے جواں سال صاحب زادے نے بھی ایک مذہبی جماعت جسے حال ہی میں حکومت نے کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا ہے، کے مبینہ کامیاب اقدامات کے فضائل بمعہ جذباتی نعروں کے وہ سماں باندھا کہ ہم سب انگشت بدنداں رہ گئے۔ صاحب زادے کے بقول وہ لوگ جن کے دل اس جماعت کے ساتھ نہیں دھڑکتے، وہ مسلمان ہی نہیں کہلائے جا سکتے (نعوذ باللہ)۔سبھی شرکاء کو یوں محسوس ہونے لگا جیسے خدانخواستہ ہمیں تو اسلام کے نہ تو بنیادی ارکان کا علم ہے اور نہ ہی ایک عام مسلمان کے فرائض کا۔
ہمیں بتایا گیا کہ موصوف حافظ قرآن ہیں اور اس مذہبی جماعت کے سرگرم کارکن ہیں،اپنے ملنے یا جاننے والوں سے نہ صرف ووٹ کے معاملے میں جماعت کی حمایت چاہتے ہیں بلکہ ہر طرح کے دھرنے اور کام کے لیے غیر مشروط وابستگی چاہتے ہیں تاکہ وہ سچے اور کھرے مسلمان کہلائے جا سکیں۔ حیرت انگیز امر یہ تھا کہ اس ماہ مقدس میں بھی روزے اور نمازوں سے وہ اسی باقاعدگی سے پرہیز فرما رہے ہیں(اس دن بھی ان کو روزہ نہیں تھا اور نماز بھی کوئی ہمارے ساتھ ادا نہیں کی) جیسے وہ عام دنوں میں کرتے ہیں۔ وجہ وہی کام کی زیادتی اور موسم کی سختی، لیکن پرامید ہیں کہ سردیوں والے رمضان میں وہ اس فریضہ کو بخوبی انجام دینے میں کامیاب رہیں گے۔
اسی طرح ہمارے شہر کے مرکزی بازار میں عید کی خریداری کے سلسلے میں ایک جنرل سٹور کے سامنے جگہ نہ ہونے کے باعث میں اپنی بائیک کے ساتھ ہی دوسری دکان کے سامنے کھڑا تھا جبکہ بیگم صاحبہ جنرل اسٹور میں تھیں۔ بازار غیر معمولی طور پر کھلا کھلا لگ رہا تھا اور دکانوں کے سامنے موجود تھڑے یا تجاوزات مکمل طور پر غائب تھیں۔ میں اس کشادگی کی وجہ انتظامیہ کی طرف سے کرونا ایس او پیز کے سختی سے نفاذ کو سمجھ رہا تھا لیکن اس کی وجہ وہاں موجود کچھ سرکاری اہلکاروں کی موجودگی بمعہ نیلی بتی والی گاڑی، جو کچھ دور کھڑی تھی۔
میں دل ہی دل میں بیگم کے جلد باہر آنے کی دعا کر رہا تھا کہ اس دکان کے مالکوں کی طرف سے مجھے درشت لہجے میں اپنی بائیک ان کی دکان کے سامنے سے ہٹانے کا حکم ملا کیونکہ وہاں انہوں نے اپنا سامان اور سائن بورڈ رکھنا تھے۔ مڑ کر بازار کا جائزہ لیا تو لگتا تھا جیسےوہ کشادہ بازار جادو کے زور پر لمحوں میں ہی سکڑ کر تنگ گلی کا منظر پیش کرنے لگا ہے، اس میں پیدل چلنے والے اور بائیک سوار آپس میں ٹکرا ٹکرا کر چلنے لگے تھے۔ نہ کوئی اس زیادتی پر احتجاج کر رہا تھا اور نہ ہی ان دکانداروں کو خود سے راستے کی تنگی کا احساس رہا تھا۔
نیلی بتی والی گاڑی اور سرکاری اہلکار بھی وہاں سے غائب تھے اس لیے اب کسی کا کوئی خوف باقی نہیں رہا تھا ۔ میں نے کمزور لہجے میں احتجاج کرنے کی کوشش کی جسے سختی سے متعلقہ دکان دار کی طرف سے رد کر دیا گیا۔ چارو ناچار بائیک سمیت میں اس تنگ گلی نما راستے میں آ کھڑا ہوا اور وہاں پھیلے بے انت رش کا خاموش حصہ بن گیا جیسے ازل سے یہی تنگی اور برداشت ہمارے مزاج کا حصہ ہے۔ لیکن کیا ہم اپنے ماتحتوں، اپنے کنبے اور معاشرے کے کمزور اور پسے ہوئے افراد کے لیے بھی برداشت کا یہی رویہ اختیار کرتے ہیں؟؟؟
یہ سوال اور اس کا جواب میں اپنے پڑھنے والوں کے لیے چھوڑتا ہوں جب کہ خود انتظار اور دعا کرتا ہوں تاکہ بیگم کی شاپنگ جلد از جلد مکمل ہو اور ہم گھر روانہ ہو سکیں