1,642

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

تحریر: سید لبید غزنوی

اندھیاری گلیاروں میں کوئی چلے تو کہاں تک چلے گا ، نہ کوئی امید کی کرن ، نہ کوئی راستہ ہے نظر میں ، صرف تاریکیاں ہی تاریکیاں ہیں ، کچھ نظر نہیں آتا ، کیونکہ کہر آلود رات سر پہ کھڑی ہے ، راستہ ہے مگر پرخطر چلیں تو کیسے چلیں ؟ یہ رات گزاریں تو کیسے گزاریں ؟ کیا پھر سے تبدیلیوں کا نعرہ لگانے والا ہے ؟ کیا پھر سے نئی حکومت نئے لوگوں کا نعرہ لگنے والا ہے ؟ کیا پھر سے الیکشن کے میدان سجیں گے ؟ ہاتھی ، گھوڑے ، گدھے سبھی اپنے اپنے استھان بچانے کے لیے رنگ بازیاں کریں گے ۔

ریت جو پڑ جائے ایک بار ، پھر وہ کہاں بدلتی ہے ، ہاں وہی نیم تاریکی رہے گی ، مایوسی رہے گی ، خوف رہے گا ، امن و امان سے خالی شور و غوغا رہے گا ، زبانی کلامی نعرے رہیں گے ، کچھ بھی تو نہیں بدلے گا ، ہاں بس چہرے نئے ہوں گے مگر کام وہی پرانے ، کن آشاوں اور امیدوں کو اپنے دلوں میں جگہ دے دی ہے ہم نے جگہ دیے ہم بیاباں صحرا میں منتظرِ نزول رحمت ہیں ؟ کبھی ہاتھوں اور پاؤں کو حرکت دیے بغیر بھی کچھ ہوا ہی ہے ؟ ہاتھوں اور پاؤں کو حرکت دیے بغیر کچھ بھی ٹھیک ہونے والا نہیں ہے ، نہ اب تلک ہوا ہے۔

اگر یہ مفروضہ قائم کیا جائے کہ آنے والے دن خوشحالی کے ، امن کے ، محبت و سکوں کے اور گردشِ دوراں کو بدلنے والے ہوں گے تو یہ ایک بے بنیاد مفروضہ ہے ، ہر عقلمند انسان کی نگاہوں سے کوئی بات بھی پوشیدہ نہیں رہی ، وہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ، کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے ؟ یہاں خون کی ہولیاں کھیلی جارہی ہیں ، عزت و عصمت دری کے بازار گرم ہیں۔

یہ سب کچھ بے مقصد تو نہیں ہے ، اس کھیل میں کون کون شامل ہے اور کہاں یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے ؟ سب دیکھ رہے ہیں ، مقصد محض تمہیں اور تمہاری غیرت دینیہ کو سلانا ہے ، اور تم ابتری کے ختم ہوجانے اور بہتری اور خوشحالی کے دن آنے کی امید میں بے خبری کی نیند سوئے ہوئے رہو ، پس منظر میں تمہاری جان بھی خطرے میں ہے ، تمہارا مال بھی خطرے میں ہے ، تمہاری عزت بھی خطرے میں ہے ، تمہاری بے خبری میں یہ ساری چیزیں لوٹ لی جائیں گی۔

یہاں لوٹ مار کا نظام ہے اور یہ نظام بدلنے والا نہیں ہے ، بہتری کی کوئی امید رکھنا ہی عبث ہے ، اگر آپ اچھے لوگوں کو لے بھی آتے ہیں تو وہ بھی طاقت اور اختیارات ملتے ہی خراب ہو جاتے ہیں ، یہ ہمارے کلچر اور نظام کی مجبوری ہے ، کوئی شک نہیں کہ لوگ اچھے بھی ہیں اور اب بھی موجود ہیں ، مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے.

نظاموں کی درستی و نادرستی پر ہی بنیاد ہوتی ہے معاشروں کے بگڑنے اور سنورنے کی ، جہاں نظام ہی خراب ہو ، وہاں آپ ایک اچھے اور پر امن معاشرے کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں ؟ کیونکہ اس نظام میں افسران بالا بھی ہیں تو درجہ چہارم کے ملازمین بھی ہیں جو بہت کم اختیارات کے مالک ہو کر بھی عوام کے حق میں پبلک سرونٹس کم اور پبلک ماسٹرز زیادہ ہیں ، اگر اسی نظام میں زندگی بسر کرتے رہنا چاہتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ۔۔۔! ” ڈارون کے پیش کردہ ارتقائی نظریے کے مطابق ” کہ یہ نظام بھی ارتقائی منازل طے کرتا کرتا کبھی تو درست ہو جائے گا ، تو میرے اپنے ذاتی خیال کے مطابق یہ کہانی میں سن تو سکتا ہوں مگر اسے ہضم کرنا میرے لیے مشکل ہے۔

چھوٹی سی عمر میں اتنا کچھ دیکھ لینے کے بعد دل اب تک قصوں کہانیوں اور افسانوں سے نہیں بہلتا ، بلکہ بحیثیت قوم اگر بات کروں تو قوم بھی میرا خیال تنگ آچکی ہے ، جھوٹ کی قلعی کھل چکی ہے ، جھوٹے دلاسے اور تسلیاں دینے والے اب بھی قوم کو دام فریب میں لیے ہوئے ہیں ، ہم گر چکے ہیں اور گرتے ہیں شہسوار ہی میدانوں میں ، مگر اب ہمیں اٹھنا ہی ہو گا ، کہنے والے کہتے ہیں ٹھوکر لگنے کے بعد منہ کے بل گرنے میں وقت کم لگتا ہے جبکہ اپنے آپ کو سنبھال کر کپڑے جھاڑنے اور دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے میں وقت زیادہ لگتا ہے اور ہمیں تو سالوں گزر چکے ہیں گرے ہوئے .

ہم بھول چکے ہیں کیا مقاصد تھے ہمارے ، کیا عظائم تھے ہمارے ، وہ سب ریت کا گھروندا ثابت ہوئے ، ہم مسلسل گرتے ہی چلے جا رہے ہیں ، کہاں ہیں ہماری منازل ؟ کہاں ہیں ہمارے تعین کردہ راستے ؟ ہم راہ گم گشتہ مسافر ہیں ، اندھیروں میں بھوکھلاہٹوں کا شکار کہاں ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مارتے پھرتے ہیں ؟ منزل تک جانا ہے تو پھر منزل کی تعیین ان الفاظ میں بیان کی جا سکتی ہے ، ہماری منزل ایک خود مختار ، با وقار اور اسلامی ریاست ہے ، جہاں سب کو برابری ملے ، انصاف ملے .

امن وسکون ملے ، جہاں سب کو جان ، مال اور عزت کا تحفظ ملے ، جہاں سب کے معاشی حقوق برابر ہوں اور ہم دنیا کے لئے ایک نمونہ اور مثال ہوں۔ منزل کی تعیین کے بعد سوچنا بنتا ہے کہ اس تک پہنچا کیسے جائے ؟ ہم جو غفلتوں کی نیند میں ڈوبے ہوئے ہیں ایک طوفانی ضرب لگا کر ہمیں جگائے کون ؟ یہ جو ہم راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں ہمیں راہ بتلائے کون ؟ ہمارا المیہ بے حسی اور بے ضمیری ہے ، ہماری سوچیں زنگ آلود ہو چکی ہیں ، ہمیں کل کی فکر نہیں بس آج کے دن ہماری بھوک مٹنی چاہیے ، چاہے کل کچھ ملے یا نہ ملے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔

ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی اپنی آوازیں دبائے ہوئے ہیں ، خاموشی کا لبادہ اوڑھے قومی سطح پر ذہنی پسماندگی اور لاچارگی کی کیفیت میں مبتلا ہیں اور میں بتاتا چلوں کہ یہ کیفیت جس بھی گھر میں ہو ، جس بھی معاشرے اور ملک میں ہو ، اس گھر، معاشرے اور ملک کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے ، شاید آپ کے اور میرے ذہن میں کہیں یہ خیال گس آتا ہو ، ہماری کیا غلطی ہے اور ہمارا کیا قصور ہے ؟ اس ملک کو ان حالات میں ہم نے تھوڑی پہنچایا ہے ، جنہوں نے اس کے بھاگ دوڑ سنبھال رکھی ہے بس وہی ذمہ داران ہیں .

اس کی بابت بس انہی سے پوچھیں ، یا پھر ہمارے اندر کہیں احساس لاچارگی اور بے بسی نے ڈیرا ڈالا ہوا ہے کہ میں تو ایک ذرہ ہوں ، میری حیثیت ہی کیا ہے ، میں کر ہی کیا سکتا ہوں ، جس کے ہاتھ میں ڈنڈا ، جس کے ہاتھ طاقت و اختیار وہی اس کے ذمہ دار ، انہیں ہی شوبھا کہ وہ کچھ کریں ، یا پھر ممکن ہے کہ میرے اور آپ کے اندر کہیں یہ سوچ پنپ رہی ہو ، جو ہے سو آج ہے ، کل کس نے دیکھی ہے ؟ یہ بھی ممکن ہے کہ ہم میں سے کئیوں نے اپنے دلوں کو جھوٹی تسلیاں دے رکھی ہوں ، جو ہونا تھا سو ہو گیا بس اب کچھ اور نہیں ہونے والا ، ڈوب رہے ہیں ڈوبے تو نہیں ہیں ، بس انہیں گھن چکروں میں گھومتے رہیں .

اب اور بھی کیا برا ہونا ؟ حکومت اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش تو نہیں ہوئی وہ جو کر سکتی ہے وہ کر رہی ہے ، وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ، سو میں سے 75 فیصد لوگ اللہ سے امیدیں باندھے ہوئے ہیں کہ اللہ ہی بہتری لائے گا ، لیکن اللہ سے امید تو وہ لگائے جس کے دل میں حقیقتاً اللہ کی قدر و منزلت ہو جو واقعی میں روز جزا و سزا اور اس کے سامنے کھڑا ہونے سے خوف کھاتا ہو ، جس نے بغاوت کا علم تھاما اور احکامات خداوندی کو پس پشت ڈال کر فسق و فجور ، فحاشی ؤ عریانی ، چور بازاری اور کساد بازاری کے دریاؤں میں غوطے لگائے ، اسے اللہ سے امید لگانے کا کیا حق ؟ اللہ نے تو یہ نہیں کہا کہ۔۔۔! رہو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے گھروں میں دبکے بیٹھے اور تسبیح کے دانوں پہ دانے ٹپاتے ، سب کچھ از خود ٹھیک ہو جائے گا

گردشِ زمانہ میں کہاں اتنی ہمت کہ وہ میرے اندر سے میری جان نچوڑ سکے ، یہ تو مجھ سے ہی میری زندگی سنبھلتی نہیں ، میں کر ہی کیا سکتا ہوں ؟ یہ جھوٹ ہے ، یہ خود فریبی ہے ، قصوروار بھی تم خود ہو اور اپنی جان کے دشمن بھی تم خود ہو ، بس اس ایک شخص کے ماسوا جس نے پوری طاقت کے ساتھ برائیوں کو روکا ، سب کے سب مجرم ہیں ، سبھی ذمہ دار ہیں اس ملک کے حالات کے بگڑنے کے ، میں بھی تم بھی ، ہم نے خود کو سوچوں کے چنگل میں اس لیے پھنسایا ہے تاکہ اپنے دل کو فریب دے سکیں .

جو گندگی کا غبار پھیلا ہوا ہے ، اس بارے میں کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے ، پتہ ہی نہیں چلتا ، یہ معلوم ہی نہیں ہو رہا کہ جائیں تو جائیں کدھر ؟ خدارا اپنی آنکھیں کھولیں ، یہ آنکھیں اللہ نے دیکھنے کے لیے دی ہیں ، انہیں استعمال میں لا کر ان سے دیکھیں ، اللہ نے دماغ اور عقل دی ہے انہیں استعمال میں لا کر سوچیں ، کیوں جمود طاری ہے ؟ اپنی منجمد زندگی کو سوچ و فکر کی گرمی سے پگھلاؤ ، گر پہچان سکو تو حق کو پہچان لو ، کیوں تمہاری آوازیں بند ہو گئی ہیں ؟ زبان اللہ نے بولنے کے لیے دی ہے ، بول تو سب ہی سکتے ہیں پھر بولتے کیوں نہیں ؟ یہ سوچنا چھوڑ دو کہ میری آواز کی حیثیت ہی کیا ہے ؟

نقار خانے میں طوطی کے بولنے کو کہاں کوئی اہمیت دیتا ہے ؟ یہ سوچنا چھوڑ دو میری آواز میں کہاں اتنی طاقت ، میرے گمان اور تخیل میں کہاں اتنی قوت پرواز کہ میرے کہنے پر کچھ اثر ہو ، ہاں میں بتاتا چلوں کہ۔۔۔! بہتری کیسے آئے گی ؟ جس مجلس کو اختیار کرو ، جس محفل میں بھی بیٹھو ، ملک کی بہتری کی باتیں کرو ، تبدیلی یہیں سے شروع ہوتی ہے آپ کے اندر بھی اور باہر بھی ، لوگوں کے مردہ ہوئے دلوں کو زندہ کرو انہیں جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر خواب غفلت سے جگاؤ ، اپنے افکار لوگوں کے سامنے پیش کرو ، یہ خوف مت کھاؤ کہ لوگ ہنسیں گے ، انگلیاں اٹھائیں گے ، آوازیں کسیں گے ، لوگوں نے تو اس دنیا کی مقدس ترین ہستیوں” انبیاء ” کو بھی نہیں چھوڑا ، انہوں نے بھی جب آواز حق بلند کی ، تو ان کے ساتھ بھی زمانے نے یہی سلوک کیا ، ان کے دلوں میں لوگوں کا خوف نہیں تھا ، لوگوں کی باتوں کا ڈر نہیں تھا ، ڈر اور خوف تھا تو صرف اللہ کا اور وہ بغیر ڈرے اعلان حق کرتے ہی رہے ۔

آج تم ان کی جگہ پہ ہو ، ان کے وارث و امین ہو ، تمہی قائد ہو ، تمہی رہنما اور روہرو ہو ، اپنے خون کا شرار جلاؤ اور رستہ تلاش کرو ، حقیقت کی تہہ تک پہنچو جو سچ ہے اس جان لو اور پھر مان لو اس سچ کو شعلہ بنالو ، مشعل راہ بنا لو ، آواز سے آواز مل کر بہت ساری آوازیں بن جائیں گی اور یہ تو حقیقت ہے کہ جب بہت ساری آوازیں مل جاتی ہیں تو کائنات لرزہ بر اندام ہو جاتی ہے ، جس قوم کے افراد اپنی حالت کو سمجھ کر اسے بدلنے کی تگ و دو نہیں کرتے اور حالت بدلنے کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے اس قوم کی حالت کیونکر بدل سکتی ہے ؟

مشہورِ عالم سائنسدان البرٹ آئن سٹائن نے کہا تھا :۔ ” یہ دنیا بڑی خطرناک جگہ ہے ان لوگوں کی وجہ سے نہیں جو بدکار ہیں ، ان لوگوں کی وجہ سے جو خاموش تماشائی ہیں۔” چاہے وہ کوئی بھی ہو اگر فتنہ و فساد بپا کیے ہوئے ہے تو اسے قبول کیوں کرتے ہو ؟ اسے جڑ سے اکھاڑ کیوں نہیں پھینکتے ؟ ہمارا قصور خاموشی ہے ، بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوئی تو سڑکوں پر ، پیٹرول گیس آٹا چینی کی قیمت بڑھی تو سڑکوں پر ، ڈاکٹرز اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کے لئے مرتے ہوئے مریضوں کو ہسپتالوں میں چھوڑ کر سڑکوں پر ، پھر اجتماعی مفاد کی خاطر کیوں ملک کی بدحالی و بدامنی کیوں برداشت کرتے ہو ؟ کیا بات صرف اپنے حقوق کی ہے ؟ کیا بات فرائض کی نہیں ہے ؟ حقوق لینے ہوں تو سب کچھ ممکن ہے بات فرائض کی ادائی کی ہو تو چشم پوشیاں کیوں ؟ یہ بات یاد رکھو جب تک اجتماعی بہتری طلب نہیں کرو گے تب تک تمہارے ذاتی مفاد بھی محفوظ نہیں رہیں گے ،

پاکستان غریب عوام نے اپنا خون پسینہ دے کر بنایا تھا اور آج بھی انہوں نے ہی اسے دوبارہ بنانا ہے ، غریب عوام ملک پہ چھائی اس اندھیری رات کو بدلنے کی ابتدا کر سکتی ہے ، غریب عوام اپنے ملک کی بحری بری اور فضائی قیادتوں کے ساتھ ساتھ اس ملک کے حکمران طبقہ سے پر امن طریقے کے ساتھ یہ استدعا کر سکتی ہے کہ ہمیں ہمارے حقوق دیے جائیں ، قیادت کرنے والوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ذاتی تجوریاں بھرنے اور دیسی بدیسی جائیدادیں بنانے کی بجائے انہیں ملک کی بہتری کے لئے کوششیں اور کاوشیں کرنی چاہیے ، یہ عہدے ، یہ کرسیاں تمہیں غریب عوام نے فراہم کی ہیں انہوں نے تمہیں اپنا نمائندہ کے طور پر چنا ہے ، ان عہدوں اور کرسیوں کا حق ادا کرو ، ہاتھ پہ ہاتھ دھرے جھوٹی تسلیاں نہ دو ، بلکہ عملی طور پر کچھ کر دکھاؤ تاکہ غریب عوام کے دلوں میں جگہ بنا کر ان کے لبوں سے دعائیں پاسکو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں