2,119

ہم کامیاب کیسے ہوں؟

تحریر: سید لبید غزنوی

کامیابی تو سب چاہتے ہیں لیکن اس بات سے مکمل طور پر واقف شاید معدودے چند لوگ ہوں گے کہ۔۔۔!کامیابی ہے کیا چیز اور اس کا حصول کس طرح ممکن ہے ؟ کامیابی کی صحیح تعریف کرنا کچھ پیچیدہ ہے کیوں کہ کامیابی کے حوالے سے سے مختلف اذہان مختلف نظریات رکھتے ہیں ، ہر ایک کے ہاں کامیابی کا تصور اور معیار الگ ہے ، کہیں بہت بڑی علمی ؤ ادبی شخصیت بن جانا کامیابی ہے تو کہیں شہرت و عزت کے بڑے استھان پہ براجمان ہونا جہاں لوگ جھک جھک کر سلام کرتے ہوں کامیابی ہے ، کہیں بڑا عہدہ اور وسیع تر اختیارات کا مالک بن کر لوگوں کو اپنے سامنے سر جھکانے پر مجبور کرنا کامیابی ہے تو کہیں اقتدار ؤ اختیار کی جنگ میں فتح حاصل کرنے کے بعد بڑی کرسی پر بیٹھ کر گردن میں سریا ڈالے دوسروں کو حقیر کیڑے مکوڑے خیال کرنا کامیابی ہے۔

حصول علم میں مصروفِ کار طالب علم کے لئے کسی بڑی ڈگری کا حصول کامیابی ہے تو کہیں ماہر فلکیات ، جینیٹک انجینئر ، بائیو کیمسٹ یا ماہر ابدان کا کوئی نئی ایجاد کرنا یا کوئی نیا نظریہ پیش کرنا جسے قبولیت کا درجہ مل جائے کامیابی ہے ، کسی ماہر ڈاکٹر کا کسی ناقابل علاج بیماری کا علاج دریافت کر لینا کامیابی ہے ، تو کہیں کسی وکیل کا مشکل و پیچیدہ ترین کیس کو اپنی فہم و فراست سے حل کر لینا کامیابی ہے ، کسی فلم یا ڈرامہ کے اداکار کے لیے کسی مشکل کردار کو خوبصورتی سے نبھانا کامیابی ہے تو کہیں ایک نازک مزاج مگر کامی بہو کا کسی سخت خاندان میں عزت و مقام حاصل کر لینا کامیابی ہے ، ایک چھوٹے بچے کا اپنا من پسند کھلونا حاصل کر لینا کامیابی ہے تو کہیں قرض میں پھنسے آدمی کا قرض خواہوں کے مطالبات سے قرض کی ادائی کے بعد نجات حاصل کرلینا کامیابی ہے۔

دو وقت کی روٹی مشکل سے کمانے والے والدین کے لئے اپنی جوان بچی کی شادی کرلینا کامیابی ہے ، تو کہیں حج و عمرہ کی سعادتیں حاصل کر لینا کامیابی ہے ، کسان کا اپنے کھیت و کھلیان میں محنت و مشقت کے بعد حاصل ہونے والی فصل سے اچھا منافع پا لینا کامیابی ہے تو کہیں کسی بیمار کا اپنی بیماری سے نکل کر شفایابی پا لینا کامیابی ہے ، یہ سب کی سب کامیابیاں ہیں ، ہاں بس ان کامیابیوں کی سطح کہیں چھوٹی تو کہیں بڑی ہے ، لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ کامیابی خواہ کوئی سی بھی ہو انسان کے لئے سکون اور مسرت کا باعث بنتی ہے۔

اگر میں غیرجانبدارانہ مشاہدہ کروں تو یہ بات روز روشن کی طرح آنکھوں کے سامنے عیاں ہوتی ہے کہ کامیابی دراصل لامحدود خواہشات کی ایک سیڑھی کا نام ہے ، ایک پاؤں رکھا ایک خواہش پوری ہوئی تو دوسری دل میں جاگ اٹھی ، دوسرا پاؤں بڑھایا اگلی خواہش پوری کرنے کے لیے تو ایک اور دل میں جاگ اُٹھی ، ایک خواہش دوسری خواہش سے جڑی ہوتی ہے ، ایک خواہش کا پورا ہو جانا کامیابی ہی ہے لیکن اگلی خواہش کا حصول بھی کامیابی ہے ، یوں کامیابیوں کے حصول میں انسان بیتاب رہتا ہے اور اس کا دل چاہتا ہے کہ میرا ہر قدم کامیابی سے ہمکنار ہو ، میری ہر خواہش پوری ہو اور یوں انسان اپنی ساری زندگی خواہشات کی لا محدود سیڑھی چڑھتے ہوئے گزار دیتا ہے ، یہاں تک کہ بھیجنے والے کا بلاوا آ پہنچتا ہے ، سانسوں کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے اور اس دنیا سے اس کا رابطہ توڑ کر اگلی دنیا سے رابطہ جوڑ دیتی ہے اور انسان کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ بے سرو سامان ہوتا ہے ، یعنی وہ سامان جو اس کے اگلی دنیا میں کام آنا تھا وہ اس کے پاس موجود ہی نہیں ہوتا۔

فی زمانہ کامیابی صرف اور صرف دولت اور طاقت کا حصول ہے ، اس کے لئے ہر جائز و ناجائز راستہ اختیار کیا جاتا ہے ، زندگی میں اپنے معیار زندگی کی بلندی کو بھی کامیابی تصور کر لیا گیا ہے ، اور یہ معیار اس قدر بلند ہو چکا ہے کہ انسان اپنی حیثیت و وقعت کھو بیٹھا ہے۔ ہم لوگ کامیابی کے حصول کے لیے زندگی کو مقفل کر کے صرف کامیابی کے حصول میں مصروف ہو جاتے ہیں ایسی کامیابی کا کوئی فائدہ نہیں ، کامیابی حقیقت میں وہی ہے جس میں کامیابی بھی ہو اور زندگی بھی ، ایسا نہیں کہ کامیابی تو مل جائے مگر زندگی نہ رہے ، آپ لوگوں کے ہاں کامیابی کا تصور چاہے کوئی سا بھی ہو ، اس میں آپ کو گوہر مقصود کس طرح مل سکتا ہے ؟ آئیے ہم اسی پر بات کرتے ہیں ، لیکن رکیے۔۔۔! اپنے کامیابی کے تصور اور نظریہ کو درست ضرور کریے گا اور پھر ان اصولوں کو اپنا لیں ان شاء اللہ گوہرِ مقصود حاصل ہو گا۔

1- کامیابی کے حصول کے لیے کسی مقصد کا ہونا از حد ضروری ہے ، فرض کیجیے کہ دوڑ کا مقابلہ ہے اور شرکاء کو ابتدائی مقام یعنی اسٹارٹنگ پوائنٹ سے تو آگاہ کیا جاتا ہے کہ یہاں سے دوڑ کے مقابلے کی ابتدا ہوگی ، لیکن اس مقام کا نہیں بتایا جاتا جہاں دوڑ ختم ہونی ہے یعنی اینڈنگ پوائنٹ کا تو کیا شرکاء میں سے کوئی کامیابی حاصل کر پائے گا ؟ ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہو گا ، وہ دوڑ لگا کر وقت ضائع کریں گے ، تھک جائیں گے ، نڈھال ہو جائیں گے ، لیکن کامیاب نہیں ہو پائیں گے کیونکہ انہیں منزل ہی نہیں بتائی گی۔

2- کامیابی کے حصول کے لیے مقصد کی تعیین کے بعد مقصد کا بڑا ہونا بھی بے حد ضروری ہے ، مثال سے بات کو سمجھئے۔۔! ایک بندہ فٹبال کھیلنے میں مہارت رکھتا ہے ، تو اگر اس کا مقصد صرف کالج و یونیورسٹی میں جیتنا ہے ہے تو یہ ایک چھوٹا مقصد ہے ، لیکن اگر وہ انٹرنیشنل ٹیم میں کھیلتا ہے تو اسے زیادہ شہرت ، زیادہ عزت و مقام ملے گا وہ دنیا میں مشہور ہو جائے گا اور تاریخ میں ایک زندہ جاوید کردار بن جائے گا۔

3- کامیابی کے حصول کے لیے مقصد کی تعیین اور بڑا مقصد نگاہوں میں رکھتے ہوئے مستقل مزاجی سے اس کی جانب بڑھنا کامیابی کو ممکن بناتا ہے ، کسی کام کی ابتدا کی جائے اور پھر اس پر ہمیشگی کی جائے ، کام شروع کرنے کے بعد اسے درمیان میں مت چھوڑیں انجام تک پہنچائیں ، بغیر ہمت ہارے اور ڈٹے رہیں جب تک وہ مکمل نہ ہو جائے مسلسل لگے رہیں ، دھیان ادھر ادھر نہ بھٹکنے دیں ، ورنہ کامیابی حاصل نہ ہو گی اور منزل ہاتھ سے نکل جائے گی ، مثال سے بات واضح کرتا ہوں ، آپ کسی محفل میں ہیں جہاں لوگ زیادہ ہیں اور کرسیاں کم ہیں ، آپ نے دور سے ایک کرسی خالی دیکھی اور اسے اپنی منزل بنایا اور ارادہ کیا کہ آپ وہاں جا کر بیٹھیں گے ، کرسی کی جانب چلے ہی تھے کہ راستے میں کچھ جان پہچان والے مل گئے اور آپ خیر خیریت ، حال احوال کرنے میں مصروف ہو کر اپنی منزل کو بھول بیٹھے ، بعد از فراغت جب اس جانب نگاہ کی جہاں آپ کی کرسی “منزل ” تھی ، تو وہاں کوئی اور بیٹھ چکا تھا ، اگر آپ ارادے کے بعد مستقل مزاجی سے منزل کی جانب بڑھتے رہتے ، ادھر ادھر نہ بھٹکتے تو یقینا آپ اس پہ بیٹھ جاتے اور سکون سے محفل سے لطف اندوز ہوتے ، بات سمجھ میں آئی کہ کامیابی کے لیے مستقل مزاجی شرط ہے۔

4- مقصد و منزل کی تعین کے بعد بڑے ہدف کو سامنے رکھتے ہوئے مستقل مزاجی سے اس کی طرف بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس مقصد کی تکمیل کے لیے مکمل وقت دینا بھی اشد ضروری ہے ، اس کے بغیر کامیابی کا کوئی تصور نہیں۔ ہمارا مزاج یہ ہے کہ کسی بھی کام کی ابتدا کے بعد ہم بہت تھوڑے وقت کے بعد کامیابی کا حصول چاہتے ہیں ، جبکہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے ، مثال سے سمجھئے۔۔۔! چائنہ میں ایک درخت جس کا نام ” بومبو ٹری ” ہے اس درخت کی خاص بات یہ ہے کہ پہلے چار سال اس کی جتنی بھی نگہداشت کر لی جائے یہ نہیں بڑھتا ، لیکن چار سال کے بعد یہ اچانک بڑھنا شروع کر دیتا ہے اور اس کی بلندی چار سو فٹ تک چلی جاتی ہے ، مسلسل محنت کے بعد ہی کامیابی ملتی ہے ، چند سالوں کی محنت و کوشش کے بعد آپ کو یوں حیران کن کامیابیاں ملیں گی کہ آپ خود حیران رہ جائیں گے ، اگر آپ سال دو سال بعد ہی ہمت ہار دیتے ہیں تو اس بات کو ذہن میں رکھیں آپ کامیابی سے محروم ہی رہیں گے ، دیکھیے اگر چائنا والے دوسرے یا تیسرے سال بومبو ٹری کی نگہداشت کرنا چھوڑ دیتے ، ہمت ہار دیتے تو کیا اس کا چار سو فٹ کی بلندی تک پہنچ جانا ممکن تھا ؟

5- ناکامی کا خوف رکھے بغیر مسلسل مقصد کے حصول میں کوشاں رہنا ہماری آج کی تحریر کا پانچواں سنہرا اصول ہے جسے اپنا کر آپ کامیابی کا زینہ چڑھ سکتے ہیں ، ” جیک ما ” جسے آج پوری دنیا جانتی ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بے شمار جگہوں پر نوکری کے لیے اپلائی کیا لیکن کوئی بھی انہیں ویٹر یا سوئپر تک کی نوکری دینے کو تیار نہ تھا ، انہوں نے ہمت نہیں ہاری ، اپنا کاروبار شروع کیا ، نہ ہی ناکامی سے خوف کھایا اور نہ ہی ہمت ہاری اور آج دنیا بھر میں ان کی سروسز علی بابا کے نام سے مشہور ہیں۔

6- مقصد اور کامیابی کے حصول کے لیے یہ بات بھی اشد ضروری ہے کہ منفی لوگوں کو نظر انداز کر دیا جائے ، جب ہم خود پر یقین کرنے کی بجائے دوسرے لوگوں کی تنقید سے خوف کھانا شروع کر دیں گے تو سمجھ لیں کامیابی ہم سے دور بھاگے گی ، یہ بات حقیقت ہے کہ۔۔! جب کوئی تنقید کرتا ہے تو ہماری عزت نفس مجروح ہوتی ہے اور کام سے ہماری دلچسپی اور قوت کم ہو جاتی ہے جس پر تنقید کی جاتی ہے ، دلچسپی مٹنے اور قوت کے نہ ہونے سے آگے بڑھنے کا راستہ بند ہو جاتا ہے اور کامیابی کا چراغ بجھ جاتا ہے۔

7- اگر آپ کے اندر کوئی نقص یا کمزوری ہے یا کوئی خامی ہے تو بغیر کسی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا ہوئے اسی کو اپنی قوت بنا کر اپنے مقصد کی جانب گامزن رہیں کامیابی آپ کے قدم چومے گی ، “مسٹر بین” سے کون واقف نہیں ، انہیں بولنے میں تھوڑی دقت تھی ، لیکن ایکٹنگ کا بے حد شوق تھا مگر زبان کی لکنت کی وجہ سے کوئی پروڈیوسر انہیں چانس نہ دیتا ، مسٹر بین نے اپنی اسی کمزوری کو اپنی طاقت بنایا اور الٹی سیدھی حرکتیں کر کے ویڈیوز بنائیں اور نارمل ایکٹنگ کرنے والوں سے کہیں زیادہ مقبول ہوئے اور شہرت کی بلندیوں تک جا پہنچے۔

8- کامیابی کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے اپنی ساری توجہ ، اپنی ساری طاقت لگا دی جائے ، دوسروں میں کیڑے نہ نکالیں ، دوسروں کی خامیاں تلاش نہ کریں ، اپنا وقت دوسروں پر تنقید کرنے میں ضائع نہ کریں ، اگر آپ نے اپنی توجہ ان فضولیات پر لگا لی تو آپ اپنے مقصد سے ہٹ جائیں گے اور کامیابی کا حصول آپ کے لیے ممکن نہ رہے گا ، لہذا کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ دوسروں پر تنقید کرنے کی بجائے صرف اپنے مقصد کو نگاہ میں رکھ کر اسی کو اہمیت دی جائے۔

آخری اور سب سے ضروری بات۔۔۔! بحیثیت مسلمان ہم سب کی کامیابی جنت کے حصول میں ہے ، ہم سب کی کامیابی جہنم سے بچا لیے جانے میں ہے ، ہم سب کا مقصد اپنے رب کی مہمان نوازیوں سے لطف اندوز ہونا ہے ، تو بس اسی کو مقصد سمجھنا اور پھر اور بڑا مقصد رکھنا کہ جنت لینی ہے تو اعلیٰ جنت لینی ہے پھر مستقل مزاجی سے عبادت و ریاضت پھر نوافل اور دیگر نیکی کے اعمال کو وقت دینا اور اگر کوئی کمی کوتاہی ہو جائے تو خوف بھی کھانا اور طمع بھی رکھنا پھر حصول جنت کے لئے کی جانے والی کاوشوں اور کوششوں پر لوگوں کی تنقید ، ان کا ٹھٹھہ مزاق اڑانا ، ان کی باتیں برداشت کرنا اور پھر سب سے بڑی کمزوری “انسان ہونے” کو اپنی طاقت بنا کر اللہ کی رضا کے حصول میں لگے رہنا یہی آخرت میں ہماری کامیابیوں کی ضمانت ہے۔

✍️ سید لبید غزنوی
15 جون 2021

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں