786

بچوں کی تربیت

تحریر: محترمہ ابصار فاطمہ

سوال: کیا والدین میں سے ایک کا بچوں سے دوستانہ رویہ رکھنا اور ایک کا سختی رکھنا اچھی تربیت کے لیے ضروری ہے؟

والدین کی اپنی نفسیاتی صحت اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے جو بات چیت چل رہی ہے اس میں ایک سوال یہ بھی آیا کہ والدین کا تربیت کے لیے یہ طریقہ اختیار کرنا کتنا درست ہے۔ دیکھیے ماں اور باپ دو الگ شخصیات ہیں جن کا بچوں سے بات چیت اور برتاؤ کا طریقہ الگ ہوگا۔ دونوں نے اب تک زندگی کو الگ الگ برتا ہے اور اس سے الگ الگ نتائج نکالے ہیں۔ ہوسکتا ہے کوئی ایک، چیزوں کو ہلکے پھلکے دوستانہ انداز میں لے کر چلنا چاہے اور دوسرا اصولوں کے ساتھ۔ لیکن یہ تربیت کا لگا بندھا اصول نہیں ہے۔ پہلی بات یہ کہ ہمیں نرمی اور دوستانہ رویہ کی حدود اور سختی کی حدود واضح ہوں۔ ہم کس بات کو دوستانہ رویہ اور کس بات کو سختی کہہ رہے ہیں؟ ہم بچے کا مذاق اڑاتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ ہم گھر کا ماحول اچھا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن جب بچہ پلٹ کے ہمارا مذاق اڑائے تو بدتمیزی کے زمرے میں آجاتا ہے۔ یہاں واضح ہے کہ دوستانہ رویہ، بے تکلفی اور نرمی کو غلط انداز میں استعمال کیا جارہا ہے۔ اسی طرح اصول بنانے اور ان پہ عمل کے لیے مارپیٹ کا طریقہ اختیار کیا جائے وہ بھی سختی کا غلط مطلب ہے۔ اسٹرکٹ روئیے اور پرتشدد روئیے میں فرق رکھنا بہت ضروری ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا کہ والدین الگ شخصیات کے مالک ہوسکتے ہیں لیکن جان بوجھ کے دونوں یہ کردار اپنائیں کہ ایک دوستانہ رویہ رکھے اور ایک سخت رویہ اپنائے اس میں چند قباحتیں ہیں۔ پہلی قباحت یہ کہ گھر میں کوئی ایک اصول بنانا ممکن نہیں ہوگا۔ کیوں کہ اس اصول پہ عمل کروانے کے لیے دونوں والدین کو ہم آہنگی کے ساتھ ایک ہی قسم کا رویہ دکھانے کی ضرورت ہے۔ دوسری بات یہ کہ بچوں کے لیے اس بات کا ادراک کرنا آسان نہیں کہ جو سختی کر رہا ہے وہ جان بوجھ کے اچھی تربیت کے لیے کر رہا ہے اور وہ بھی دوستانہ پیرنٹ کی طرح ان سے محبت کرتا ہے۔ ایک طرف مکمل دوستانہ رویہ سخت رویہ رکھنے والے پیرنٹ سے بچوں کا جذباتی فاصلہ بڑھا دے گا۔ دوسرا یہ فاصلہ ختم کرنے کے لیے باقاعدہ جتانے کی حد تک بار بار ان قربانیوں کا احساس دلوانا پڑے گا جو وہ “سخت پیرنٹ” بچوں کے لیے کر رہا ہے۔ اس کے باوجودِ بچوں کے لیے اس پہ یقین کرنا مشکل ہوگا۔ جب تک وہ خود پیرنٹ نہ بن جائیں اور اس دوستانہ پیرنٹ یا سخت پیرنٹ میں سے ایک کردار چنیں۔ مناسب طریقہ یہ ہے کہ پہلے اصول پہ دھیان رکھتے ہوئے یعنی خود اپنی نفسیاتی صحت کو ترجیحات میں رکھتے ہوئے۔ دونوں والدین ایک ہی تربیت کا پلان بنائیں ایک جیسے اصول بنائیں جنہیں نرمی کے ساتھ لاگو کریں۔ اصولوں میں سختی ضرور ہو روئیوں میں نہ ہو۔ ساتھ ہی اس بات کا خیال رکھیں کہ بنائے گئے اصول بچوں اور بڑوں کے لیے ایک جیسے ہوں۔ اگر آپ بچوں کو بدتمیزی سے منع کر رہے ہیں تو آپ بھی بچوں سے اسی عزت سے بات کریں جو بچوں کو سکھانی ہے۔ اگر بچوں کو جلدی سلانا ہے تو خود بھی اس مخصوص وقت لیٹ جائیں۔ بچوں کو وقت دینے کی ذمہ داریاں بانٹیں تاکہ بچوں کو پتا ہو کہ فیملی کو وقت دینا اہم ترجیح میں آتا ہے چاہے آپ گھریلو مصروفیات یا غم روزگار میں جتنے ہی مصروف کیوں ناں ہوں۔ یقیناً اس ٹاپک میں بہت سے پہلوؤں پہ بات ہوسکتی ہے جو اگلے دنوں ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

بچوں کی تربیت” ایک تبصرہ

  1. ابصار فاطمہ
    ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں