تحریر:ہانیہ ارمیا
سر ارشد کالج چھوڑ چکے ہیں شائد۔ کس نے کہا؟ حمزہ نے پانی کا گلاس جس تیزی سے پکڑا۔ سر ارشد کے کالج چھوڑنے کی خبر پہ اتنی ہی تیزی سے واپس رکھ دیا۔ اور پاس سے گزرتے توصیف کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک لیا۔ توصیف یہ دیکھ! فیصل کیا کہہ رہا ہے؟ کیا؟ توصیف نے پوچھا۔ میں اسے کہہ رہا تھا کہ کیمسڑی کی کلاس ہوئے دس دن گزر چکے ہیں۔ پہلے بار بار لاک ڈاون کی وجہ سے پڑھائی نہیں ہو سکی۔ اور پتہ ہے ناں۔ پیپرز کی ڈیٹ شیٹ کا اعلان بھی ہو گیا ہے۔ سب سے پہلے بارھویں کے یعنی ہمارے امتحان ہوں گے۔ اب ایسے میں کیمسڑی کا استاد کالج سے غائب۔۔۔۔ میرا خیال ہے سر ارشد نے کالج چھوڑ دیا ہے۔ ارے نہیں۔۔۔۔۔۔۔ وہ بیمار ہیں۔ توصیف نے بتایا تمھیں کیسے پتہ؟ حمزہ نے سوال کیا۔ دراصل سر فیصل کا بیٹا ملک سے باہر چلا گیا ہے اور۔ ابھی توصیف نے اتنی بات کہی تھی کہ فیصل نے بات پوری سنی بغیر کہنا شروع کر دیا۔ تو پھر میری بات ٹھیک ہے ناں۔ وہ کالج چھوڑ چکے ہیں۔اب انھیں نوکری کی کیا ضرورت۔ یار فیصل تو بھی ناں۔۔۔ پوری بات تو سن۔ توصیف جھنجھلا کے بولا! سر فیصل کا ایک ہی بیٹا ہے۔ اور وہ ایم-بی-اے کرنے آکسفورڈ یونیورسٹی گیا تھا۔ سر نے اسے جانے سے بھی منع کیا تھا۔ کہ وہ یہاں لاہور کی کسی یونیورسٹی میں داخلہ لے لے۔ اور انھیں اکیلا چھوڑ کے نہ جائے۔ مگر بیٹا نہ مانا۔ ضد کر کے چلا گیا۔ سر فیصل کی مسز بھی فوت ہو چکی ہیں۔ خیر انھوں نے تین سال تو بیٹے کے بنا گزار لیے۔ مگر پندرہ دن پہلے اُن کے بیٹے کا فون آیا تھا۔ کہ اُس نے وہاں شادی کر لی ہے اور ابھی اُس کے واپس آنے کا کوئی پروگرام نہیں۔ جب سے سر کو اُن کے بیٹے نے یہ کہا ہے۔ اُن کا بلڈ پریشر بہت ہائی ہے۔ اُن کی طبیعت بالکل ٹھیک نہیں۔اس لیے وہ کالج نہیں آ رہے۔ ہمارا حرج تو ہو رہا ہے۔ مگر سر ابھی پریشان ہیں۔
توصیف تمھیں کس نے یہ سب بتایا؟ حمزہ نے پریشانی سے پوچھا۔ میں ریاضی پڑھنے سر اویس کے گھر جاتا ہوں۔ کل جب میں پڑھ رہا تھا۔ اُسی دوران سر ارشد کا فون آیا تھا۔ اُن کی باتیں سن کے سر اویس بھی پریشان ہو گئے تھے۔ یار! ماں باپ کو تکلیف دینا کتنی غلط بات ہے۔ سر ارشد کتنے دکھی ہوں گے۔ توصیف کی باتیں سن کے فیصل بےحد پریشان ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تینوں دوست باتیں کرتے لائبریری تک آ گئے۔ مگر لائبریری کے پاس پہنچ کر فیصل بولا۔ تم لوگ جاؤ یار۔ مجھے کچھ کھانا ہے لائبریری جانے کا میرا ابھی موڈ نہیں۔ یہ کہہ کر وہ آگے جانے ہی لگا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ توصیف بولا۔ ارے فیصل یار سن۔ پرسوں فادرز ڈے ہے۔ کیوں نہ ہم پوری سیکنڈ ائیر کلاس، سر کو پارٹی دیں۔ اُن کو گفٹ بھی دیں گے۔ اور کسی ریسٹورنٹ میں کھانا بھی کھلائیں گے۔ اس سے اُن کی پریشانی کچھ حد تک کم ہو جائے گی۔ پرسوں اتوار دوپہر کے وقت۔ کیسا رہے گا؟ پلان تو زبردست ہے۔ فیصل اور حمزہ دونوں راضی ہو گئے۔ تم عقلمند ہو مجھے آج پتہ چلا۔ حمزہ نے ہنستے ہوئے توصیف کو چت لگائی۔
اُن تینوں نے اپنی جماعت کے سبھی لڑکوں کو سر ارشد کی پریشانی کے متعلق بتایا۔ اور اپنا اتوار کا پلان بھی۔ تقریباً سبھی راضی ہو گئے۔ کیونکہ وہ سر ارشد کو پریشانی سے راحت دینا چاہتے تھے۔ اب مسئلہ تھا کہ سر کو ریسٹورنٹ تک کیسے لایا جائے۔ یہ مسئلہ بھی فیصل نے یوں حل کیا کہ توصیف آج شام کے وقت سر اویس کو درخواست کرے گا کہ بروز اتوار کسی بہانے سے سر ارشد کو ریسٹورنٹ لے آئیں۔ سر اویس بچوں کا یہ پلان سن کر بےحد خوش ہوئے۔ اور فیصل کو یقین دلایا کہ وہ ارشد صاحب کو مقررہ جگہ پہ وقت پہ لے آئیں گے۔ ہفتے کو تمام جماعت نے اپنی پاکٹ منی جمع کی۔ چھٹی کے بعد ریسٹورنٹ میں ٹیبل بک کروایا۔ اور سر کے لیے نیلے رنگ کی ایک خوبصورت شرٹ خریدی۔ اب اُن سب کو انتظار تھا اتوار کی دوپہر کا۔ جب وہ اپنے استاد کی پریشانی کو کچھ کم کر سکیں گے۔ مارے خوشی کے کسی کو بھی نیند نہیں آرہی تھی۔ اتوار کو فاردز ڈے بھی تھا۔ سر اویس بہانے سے سر ارشد کو بچوں کے بتائے ہوئے ریسٹورنٹ میں لے آئے۔
سر کے اندر آتے ہی تمام طلبہ نے پرجوش آواز میں سلام کے بعد انھیں فاردز ڈے کی مبارکباد دی۔ اور باری باری اُن کا حال پوچھا۔ تمام جماعت نے جب انھیں گفٹ دیا اور کھانے کے اہتمام کے متعلق بتایا۔ سر ارشد کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو امڈ آئے۔ وہ بھرائی آواز میں بولے۔ اویس صاحب میں ایک بیٹے کے لیے دکھی ہو رہا تھا۔ اللہ نے مجھے تیس بیٹے ایک ساتھ دے دئیے۔ میں بھول گیا تھا کہ استاد بھی تو روحانی والد ہی ہوتا ہے۔ اور پھر وہ بچوں سے مخاطب ہوئے۔۔۔۔۔ بچوں میں کل سے کالج ضرور آؤں گا۔ اور آج مجھے بےحد خوشی ہوئی۔ کیونکہ اللہ نے میری تدریس کی خدمت کا بہترین صلہ بخشا ہے