1,260

انسان اور اسکا سفر

تحریر: صفیہ عمران

جب اللہ تعالٰی نے چاہا میں پہچانا جائوں تو اللہ رب العزت نے انسان کو احسن تقویم مرت الرحمن بنا کر تخلیق کیا ۔ انسان اللہ کا خوبصورت خیال ہے جو صفات سے گزرتا ہوا ذات تک رسائی حاصل کرتا ہے کچھ انسان ایسے ہیں جو دنیا میں آنے کے بعد بھی نہیں بدلتے جب تمام روحوں نے عہد الست لیا تھا اللہ سے عہد الست لیتے ہوئے ان کی روح اس سوال میں اٹک سی گئی جس کی وہ گواہی دے کر آئے ہوتے ہیں ” آپ ہی ہمارے رب ہیں” ۔۔۔۔ اس لاشعوری سوال کو سمجھنا اور سلجھانا دنیا میں ہوتا ہے ایسے لوگ کررئے عرض پر آ تو جاتے لیکن انہیں دنیا کی چکا چوند کوئی چیز متاثر کر نہیں پا تی ۔کھیل کود بلا وجہ کی شوخیاں، شرارتیں فنونِ لطیفہ ،ادب ، کتابی علم موسیقی سے دلچسپی رکھتے ہوئے بھی کھینچتی نہیں انہیں وہ نہیں ملتا جس کی انہیں لاشعوری تلاش ہوتی ہے

فریکوئنسی کہیں اور جڑی رہتی ہے اندر کی کائنات کی گھڑی کچھ اور پراسیس کررہی ہوتی ہے باہر کچھ اور پھر وہ انسان علم کے ذریعے شعور کے سوالات سلجھانے کی کوشش کرتاہے۔ اس سب کے لئے اسے isolated علیحدہ اور خاموش ہونے کی ضرورت پیش آتی ہے جیسے اسے کسی کا انتظار رہتا ہے وہ تخلیق کائنات کو یقین کی آنکھ سے دیکھنا اور اس یقین سے محسوس کرنا چاہتا ہے ۔وہ کیوں دیکھنا چاہتا ہے ؟ کیا اسے اس بابرکت زات کے ہونے کا یقین نہیں ہوتا ؟ یقین ہوتا ہے لیکن سوالات کچھ اس طرح سے جنم لینے لگتے ہیں۔ اللہ ، جسم ، روح، انسان، کائنات، دنیا آخرت ان سب کا باہمی تعلق جو جو کچھ ہے لیکن سب الگ الگ جہان اور معانی رکھتے ہیں ۔ آہ پیچیدہ معاملے جس کو دل مان لیتا ہے لیکن دماغ ماننے میں زرا دیر لگاتا ہے تو وہ سوچتا ہے جب آپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوا تو اس کے دنیا میں بھیجنے کا مقصد حیات کیا ہے ؟ یہاں کرنا کیا ہے واپس کیوں جانا اور ساتھ کیا لینا چھوڑ کیا جانا ہے؟؟؟؟؟


سوال در سوال ، سوال، سوال کا پیش خیمہ بن جاتا ہے ان سوالوں میں وہ اتنا مجبور محض اور الجھ چکا ہوتا ہے تو کہ اسے کسی راہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے تاکہ کوئی اس کے سوالات کو سلجھائے سمت دے سکے کتابیں یہ معمے سلجھا سکی ہیں نہ کبھی سلجھا پائیں گی ۔ایسے انسان کا بچپن سے من کا آئنہ دھندلا نہیں ہوتا حسد ، کینا ، بغض ، انا کی دھول آئینے کو دھندلا نہیں کرتی اگر کرتی بھی ہے تو اسے صاف رکھنے کی کوشش معصومیت میں جو چیز مضر ہے بھٹکانے والی ہے اسے رد کرتاہے جو چیز معاون ثابت ہوتی ہے اسے چن لیتا ہے یہ سوچ کا طرزِ عمل اسکا مائنڈ سیٹ بناتا ہے سچائی برقرار رہتی ہے۔

سچ ایک آئینہ ہی تو ہے ایسے سچے کے من کی کائنات میں اللہ چپ کے سے نہیں اعلان کر کے دل میں آتا ہے ۔جس کی خبر سب سنتے ہیں بس بے سماعت سن نہیں پاتے سوائے ان کے جو کائناتی آواز سن سکتے ہیں ۔خیر اور شر کی جنگ اندرچھڑتی ہے تو اثرات باہر بھی مرتب یوتے ہیں۔ دور مکی ہو یامدنی اندر کی منافقت کو نکالنے کے لیے واسطہ بالآخر باطل سے ہی پڑتا ہے جنگ کی وسل بجتے ہی اپنے پرائے ہوجاتے ہیں ایسے سمے کوئی ابوبکر ، علی، خدیجہ جیسے ڈھارس بندھانے والے دوست بھی آتے ہیں ۔ اللہ خود نہیں آتے آپنے بندوں کے زریعے خیر اور شر کا فرق سمجھاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مجھ سے پہلے میرے بندوں سے پیار کرو شریعت ، طریقت ، اور محبت کے عمل کی یہ ترتیب ، ترتیب میں اجاتی ہے پھر وہ جان لیتا ہیں کہ
Direction is more important than your speed۔
مسافر کو یہ فکر ہوتی کہ اس کے سفر کی رفتار کم یا زیادہ نہ ہو بلکہ وہ سمت کی طرف دھیان رکھتا ہے کیونکہ بے سمتی نشان مرکز کھو دیتی ہے۔ وہ پرسکون راضی بہ رضا اطمینان سے چل پڑتا ہے ۔
خود غرض لوگ مذاق اڑاتے ہیں ، بیوقوف دیوانا کہتے ہیں ۔۔۔ لیکن وہ اس بات سے لاعلم ریتے ہیں کہ انہوں نے اس بے وقعت خسارے کی دنیا کا سودا آخرت کے بدلے جان نوک سناں پہ رکھ کر کرلیا ہوتا ہے ۔ وہ یہ آواز کبھی نہیں بھولتے دیکھو دنیا میں کہیں کھو نا جانا دشمن کے سبز باغ دیکھتے ہوئے ۔ دراصل دانائ بلند عقل ذہین اذہان رکھنے والے یہ لوگ حالاتِ کے تجربات کے زریعے مشاہداتی علم رکھتے حکمت عملی کرتے ہیں ۔ وہ حالات کی بھٹی میں پک کر کندن بن جاتے ہیں ۔ عام انسان ان کی نفسیات کا ادراک نہیں کر سکتا کیونکہ وہ روحانیطور پر کہاں کہاں کیسے رابطہ کئیے ہوتے ہیں نہ کسی کو ٹوہ ملتی ہے نہ خبر ۔ آپ دنیا کی آبیاری کریں دنیا بڑھ جائے گی آپ اپنی زات سے آخرت کی آبیاری کریں ایمان بڑھ جائے گا ۔

آپ کیا چاہتے ہیں؟ آپ کیا پسند کرتے ہیں آپ کی پہلی ترجیح کیا ہے؟

The choice is yours

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں