4,052

نوجوان ملک و ملت کا سرمایا ہیں

✍️ سید لبید غزنوی

29 جون 2021

کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی میں نوجوانوں کا کردار بہت ہی اہم حیثیت رکھتا ہے اور قوم کے ان چمکتے دمکتے ستاروں سے قوم کے بڑوں کو قوم کے روشن مستقبل کے حوالے سے بڑی اچھی توقعات ہوتی ہیں ، کسی بھی قوم کے نوجوان اگر باہمت اور باکردار ہوں گے تو اس قوم کا مستقبل بھی روشن و تابناک ہوگا ، لیکن اگر اس کے برعکس کسی قوم کے نوجوان پست ہمت ، علم و ہنر سے خالی اور بے راہروی کا شکار ہوں تو اس قوم کا مستقبل بھی تاریک ہوجاتا ہے۔ اگر ہم دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کریں تو ہمیں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ دین کے پھریرے لہرانے اور خدمت دین کے حوالے سے نوجوان صحابہ کرام (حضرت علی ابن طالب ، سیدنا عبداللہ بن عمر ، سیدنا انس بن مالک ، سیدنا عبداللہ بن عباس ، سیدنا اسامہ بن زید رضوان اللہ علیہم اجمعین ) اور بھی بہت سارے نوجوان صحابہ کرام نے دینی علم کے حصول اور پھر اس کو آگے پھیلانے میں بھرپور انداز سے حصہ لیا ۔

اسلام نے جب جب پکارا تب تب مسلم نوجوانوں نے لبیک کہا اور خدمت دین اور دین کو بچانے کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ، میدان بدر میں مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن کی گردن مارنے والے دو نوجوان معوز اور معاز بھی نوعمر ہی تھے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نوجوانوں کی تعلیم و تربیت میں خاص دلچسپی لیتے تھے اور پھر ان کی حوصلہ افزائی بھی فرمایا کرتے تھے ، مشہور حدیث مبارکہ ہے : سات آدمیوں کو اللہ تعالی اپنے عرش کا سایہ نصیب فرمائیں گے ، ان میں سے ایک اس نوجوان کو قرار دیا گیا جو دور نوجوانی میں اپنے آپ کو اللہ اور اس کے دین کے لیے وقف کر دیتا ہے ، اس کا دل مسجد کے ساتھ لگا رہتا ہے۔

نوجوانان مسلم نے لشکروں کی قیادت بھی کی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت ساری اہم مہمات میں نوجوان صحابہ کرام کو لشکر کا امیر مقرر کر کے قیادت و سیادت ان کے سپرد کی تھی ، وفات سے قبل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آخری لشکر ترتیب دیا تھا اس کی قیادت نوجوان صحابی سیدنا اسامہ بن زید کے سپرد کی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد سیدنا صدیق اکبر کے دور میں یہ لشکر اسامہ بن زید کی ہی سرکردگی میں روانہ کیا گیا تھا ، احادیث کے ذخیرے پر جب میری نگاہ پڑی تو بعد از جانچ پڑتال یہ بات آشکار ہوئی ، اتنا بڑا ذخیرہ ہم تک منتقل کرنے والے صحابہ کرام بھی نوجوان ہی تھے۔ آج جب میں نے اپنے معاشرے پر نگاہ ڈالی تو میں دیکھتا ہوں کہ میری ملت کا پاسباں چند ایک مسائل میں بری طرح سے پھنسا ہوا ہے ، ملک و ملت کے ان ستاروں اور روشن فانوسوں کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے والدین ، اساتذہ کرام ، علماء اور سیاسی رہنماؤں کو اپنی اپنی ذمہ داریوں سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد حسب استطاعت محنت و کوشش کرنا ہوگی تبھی نوجوان مسلم اور خاص کر پاکستان کا نوجوان وہ کارہائے نمایاں سر انجام دے سکے گا اور ہر میدان میں کامیابیوں کے وہ جھنڈے گاڑ سکے گا جس سے آپ کا سر فخر سے بلند ہو جائے گا۔

آئیے ان چند ایک مسائل کا ذکر ہو جائے جنہوں نے نوجوانوں کے دل و دماغ کو جکڑ رکھا ہے اور ان کی صلاحیتوں اور خوبیوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ، ان مسائل میں سے پہلا مسئلہ : خطہ امن اماں ، جانِ جسم و جاں ، ملک پاکستان کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد دین سے کوسوں دور ہے ، دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر دولت دنیا اور آسائشات دنیا کے حصول کو ہی انہوں نے اپنا مقصد حیات سمجھ لیا ہے ، وہ اپنا مستقبل سنوارنے اور کیرئیر بنانے کے لئے دن رات کوشاں رہتے ہوئے نماز روزے اور دیگر ارکان دین پر عمل درآمد کرنے سے کوتاہی اور غفلت برتتے ہوئے نظر آتے ہیں ، یقین مانیے۔۔! بہت سارے نوجوان دین سے اس قدر دور ہو چکے ہیں کہ وہ بس جمعہ کی نماز اور عیدین پر ہی مسجد میں دکھائی دیتے ہیں۔

حقائق بڑے خوفناک ہوا کرتے ہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے اور بڑی دردناک بھی کہ ایسے نوجوان معاشی اعتبار سے کامیابیاں حاصل کر بھی لیں تو دینی اعتبار سے پسماندگی ان کی ناکامی اور خسارے کی دلیل ہوا کرتی ہے ، دنیا کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے اخروی زندگی کے لیے بھی تگ و دو کرنا اور اس کی بہتری کے لیے کوشاں رہنا حقیقی کامیابی کا ضامن ہے۔جو نوجوان اس حوالے سے کوتاہی برت رہے ہیں انہیں ٹھنڈے دل و دماغ سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ، یہ بڑی خطرناک صورتحال ہے ، اگر غفلتیں یونہی رہیں ، کوتاہیاں یونہی رہیں تو پھر خسارہ ہی خسارہ ہے ، اس حوالے سے والدین اور اساتذہ کرام پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے شاگردوں اپنی اولادوں کی دنیاوی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم و تربیت کا بھی خاص اہتمام کریں۔

دوسرا وہ مسئلہ جس کا میرے ملک پاکستان کا ہر دوسرا نوجوان شکار ہے ، وہ ہے احساسِ محرومی ، جب ان کے سامنے زندگی کا کوئی واضح مقصد نہیں ہوتا تو وہ بہت جلد گھبرا جاتے ہیں ، بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں تب احساس محرومیت انہیں اپنے گھیرے میں لے کر گھمبیر قسم کے نفسیاتی عوارضات مثلاً ڈپریشن ، انزائٹی اور دیگر عوارضات جسمانیہ میں مبتلا کرکے ان کے اعصابی نظام کو تباہ و برباد کر دیتا ہے اور اس کا المناک انجام یہ ہوتا ہے کہ ایسے نوجوان ملک و ملت کے پاسبان بن کر اس کی خدمت کرنا تو دور خود کو بھی سنبھالنے سے قاصر ہوجاتے ہیں ، وہ جنہیں جہاں بانی کرنی تھی اپنی زندگی کے اہم معاملات سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں ، ایسے وقت اور ایسی حالت میں ان نوجوانوں کے اعزہ و اقارب کو انہیں حوصلہ دینا چاہئے اور انہیں مایوسیوں کی دلدل سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے ، اور یہ بات بھی ضروری ہے کہ ان نوجوانوں کو ان درپیش مسائل کے حل کے لیے ، اللہ تعالیٰ سے تعلق بنانے اس کے ذکر و فکر میں رہنے ، توبہ واستغفار کرنے اور توکل اختیار کرنے کی طرف بھی راغب کیا جائے ، اگر ایسا ہو جائے تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ان مسائل سے چھٹکارا پا کر ملک و ملت کے حقیقی پاسبانی کو تیار ہو جائے گی۔

ملک پاکستان کے نوجوان کا تیسرا اور سب سے اہم مسئلہ بری صحبت بھی ہے جو اسے کشاں کشاں تباہی ؤ بربادی اور ذلت و رسوائی کے گڑھوں میں گرا کر اسے ملک و قوم کے کسی بھی کام کا نہیں رہنے دیتی ، دنیا کے دوسرے معاشروں کی دیکھا داکھی ہمارے نوجوان بھی بری صحبت کا شکار ہو جاتے ہیں ، یہ بری صحبتیں انہیں غنڈوں ، موالیوں اور نشے بازوں سے ملوا کر انہیں بھی منشیات کا عادی بنا دیتی ہیں اور پھر ایسے چرسی ، بھنگی ، غنڈے اور موالی چوریاں کرتے ہیں ، ڈکیتیاں ڈالتے ہیں اور قتل و غارت گری جیسے سنگین جرائم بھی بیباکی سے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، نوجوانوں کو ان بری صحبتوں کے اختیار کرنے سے بچانے میں سب سے اہم کردار والدین کا ہوتا ہے ، انہیں اس حوالے سے اپنی اولادوں پر کڑی نظر رکھنی چاہیے ، اگر انہیں اپنی اولادوں کی عادات واطوار بدلتے ہوئے نظر آئیں تو انہیں فوراً اپنے بچوں کی صحبت کے بارے میں سوال کرنا چاہیے ، اور یہ بات تو اللہ تعالی نے قرآن میں بالکل واضح طور پر بیان کر دی ہے ، بری صحبت ہی بندے کو سیدھی راہ سے بھٹکاتی ہے۔

سورہ الفرقان میں اللہ تعالی فرماتے ہیں : ظالم روزِ قیامت اپنے دانتوں سے اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا ، چیخے گا ، چلائے گا اور کہے گا کہ کاش میں نے دنیا میں فلاں کو اپنا دوست ، اپنا یار ، اپنا متر ، اپنا سنگی نہ بنایا ہوتا ، اس نے مجھے گمراہ کردیا۔ بری صحبت انسان کو تباہ کر دیتی ہے ، صحیح معنوں میں ملک و ملت کا روشن اور چمکتا ہوا ستارہ بننے کے لئے اپنی صحبت کو درست کرنا ملک پاکستان کے نوجوان کی اہم ترین ذمہ داری ہے ، فارسی کا ایک ضرب المثل ہے : صحبت صالح صالح کند ، اچھی صحبت ہی انسان کو اچھا انسان بناتی ہے۔

ملک پاکستان کے نوجوانوں کا چوتھا مسئلہ جنسی بے راہروی ہے ، گندی فلمیں ، مخرب اخلاق ڈرامے ، فحش گانے ، مخرب اخلاق اور بے ہودہ لٹریچر ، انٹرنیٹ پر موجود بہت ساری فحش سائٹس اور گندے لوگوں کے پھیلائے ہوئے گند کو دیکھنے کی وجہ سے نوجوانوں کے اذہان و قلوب بری طرح متاثر ہوتے ہیں اور ایک بڑی تعداد جنسی بے راہروی کے راستے پر چل پڑتی ہے ، ان قبیح کاموں سے بچاؤ کے لئے والدین اپنے بچوں کی تربیت اس نہج پر کریں کہ وہ ایسی تمام چیزوں اور ایسے تمام کاموں سے دور رہیں ، والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولادوں کو حیا داری ، پاکدامنی اور نظروں کو جھکانا سکھائیں ، لڑکوں کی طرح لڑکیوں کو بھی ، خواتین اسلام کو بھی پردہ ، حجاب و نقاب اور حیا کا درس دینا والدین کی ذمہ داری ہے ، بے راہروی سے بچانے کے لیے نوجوانوں کی جلد شادیاں کرنا بھی ایک اہم ترین پہلو ہے۔

نوجوانان مسلم اور خاص کر کے پاکستان کے نوجوانوں کا اور ہماری اس گفتگو کا آخری مسئلہ والدین سے دوری ہے ، آج معاشرے کے وجود کے صحیح سالم نہ ہونے اور اس کے حصے بخرے ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ والدین اور نوجوانوں کے مابین ایک خلا پیدا ہو چکا ہے ، دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سارے والدین اپنے گھر کے نظم ونسق کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے اور اپنی اولادوں کے درمیان ضرورت سے زیادہ ابلاغی فاصلہ رکھتے ہیں ، یہ اضافی ابلاغی فاصلہ کسی بھی معاشرے میں ہو ، اس کے لئے فائدہ بخش نہیں ہوگا ، والدین کو اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ اپنے بچوں کی کارکردگی میں اضافہ چاہتے ہیں اور انہیں ملک و ملت کا صحیح معنوں میں پاسباں بنانا چاہتے ہیں تو اپنے اور ان کے درمیان فاصلے کو کم کر کے دین و دنیا کی مفید سرگرمیوں میں انہیں اپنے ہمراہ لے کر چلنا ہوگا ، آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارے معاشرے کے نوجوانوں کو گمراہی ، بے راہروی اور غلط راستوں سے بچا کر سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق دے تاکہ وہ ملک و ملت کی خدمت کا فریضہ احسن انداز میں انجام دے سکیں۔ آمین ثم آمین یارب العالمین


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں