610

اف یہ گرمی

تحریر: ہانیہ ارمیا

سال ۲۰۲۱، جنوری کی یخ بستہ ہواؤں میں لپٹا انسانی تاریخ میں جلوہ فرما ہوا۔ سردی کی تیز لہروں میں بہتا وہ دھیرے دھیرے موسمِ بہار سے گزرتا اپریل کے اوائل میں براجمان ہوا۔ دوسرا عشرہ رمضان کی رحمتوں سے پُر تھا مگر عوام خوفزدہ تھی کہ کہیں گرمی کی تیز ہوا رمضان المبارک کی برکات کا مزہ کرکرا نہ کر دے۔ خیر رب کی رحمت کھل کر برسی اور ماہِ رمضان بخیر و عافیت انجام پایا۔ مگر مئی کے آخری ہفتے سے سورج میاں کے مزاج بدلنے لگے۔ تیور ایسے کہ دن چڑھتے ہی آگ بگولہ ہو جاتے۔ پارہ 45 ڈگری، عوام پھر پریشان۔۔۔۔۔ کہ آخر سورج میاں کس گستاخی پہ سیخ پا ہوئے پھر رہے ہیں۔ سورج میاں سے ایک شام جان کی امان لیتے ہوئے دریافت کیا کہ کیوں بھئی! ایسا کیا غصہ؟ تو جواب ملا! نادانو، ۲۰۲۱ اب مئی کو چھوڑ کے جون کے ساتھ جڑ چکا ہے۔مجھ پہ عالمِ شباب کا دور ہے۔ ان دنوں میں جیسے ہی رات اپنا وقت ختم کر کے آرام کرنے جاتی ہے۔ تو میری پہلی ہی کرن کی سفیدی افق کو روشن کرنے کے لیے کافی ہے۔ مگر تم چاہتے ہو کہ میں نرم و سرد مزاجی کا مظاہرہ کروں۔

زمانہ عروج ہو اور گرم جوشی نہ ہو۔ ایسا بھلا کیسے ممکن ہے؟ اس وقت تو آوارہ، سر پھرے بادل بھی میرے سامنے ٹھہر نہیں سکتے۔ کالی گھنگھور گھٹائیں مجھ سے منہ چھپائے پھرتی ہیں۔ چاند بھی میری آب و تاب کو دیکھتے ہوئے رات کے دوسرے پہر تک ٹھنڈک نہیں دیتا۔ بارش کا سازِ جلترنگ خاموشی کی چادر اوڑھ کر سو جاتا ہے۔ نادانو تم چاہتے ہو کہ میں اپنے دورِ شباب کو بنا تاریخ رقم کیے جانے دوں۔۔۔۔ اور تو اور تم انسان مجھ سے آنکھ ملانے کی بھی جرات نہیں کر پاتے۔ میرے سامنے آتے ہی ڈر کر بھاگنے لگتے ہو۔۔۔۔

ہاہاہا۔ یہ کہہ جناب سورج کا ایک زوردار قہقہہ فضا میں گونجا۔ اور ہم معصوم صفت، نادم سے ہو کےخاموش ہو گئے۔ کیونکہ بات بجا تھی۔ عالمِ شباب ہو اور تاریخ رقم نہ ہو تو ایسی جوانی بے معنی کہلاتی ہے۔ مگر اففف یہ گرمی۔ کہ نہ دن کو آرام نہ رات کو سکون۔ نہ کھانے میں مزہ ، نہ نیند کی طلب۔ بےچینی اور اضطراب کی سی کیفیت طاری رہتی ہے۔ جسے دیکھو یہ چاہتا ہے کہ بس پانی ملتا رہے پینے کو بھی اور نہانے کو بھی۔ فقط پانی کے سامنے ہی اس گرم مزاج سورج کی تپش ماند پڑتی ہے۔ ورنہ تو گرمی کی شدت سے سر درد الگ اور گھر میں بچوں کی پٹائی الگ۔

مائیں گرمی سے نالاں دوسری طرف تعلیمی اداروں میں چھٹیاں۔ بچوں کو تو کھیل کود کی صرف لگن، گرمی کی پرواہ کسے۔ نہ سکول جانا، نہ ہی وقت پہ پڑھنا۔ تو جناب پھر پٹائی ہونی تو بنتی ہے ناں۔ ایک کو چپل پڑتی ہے تو دوسرے کو تھپڑ۔۔۔۔ مگر اس سال الٹا حساب ہوا۔ کرونا کی مہربانی یوں تو لمبے عرصے تک بچوں پہ بنی رہی۔ مگر جون میں اس بار کرونا کی ساز باز سورج سے ہوگئی۔ اور تمام تعلیمی ادارے کھول دئیے گئے ۔ یعنی اس بار ماؤں کے ساتھ بچے بھی پریشان۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں