6,222

رب تعالیٰ کی طرف سے نیکی بطور تحفہ


تحریر: صفیہ عمران


ہر نیکی “وما توفیق الا بااللہ” ہے
نیکی رب تعالیٰ اس کی طرف بھیجتا ہے جس سے وہ راضی ہوتا ہے خاص نظر کرم کرتا ہے ۔
نیکی کیا ہے ؟ نیکی تزکیہ نفس ہے ۔ تزکیہ نفس کیا ہے ؟ “نیکی کا ذوق رکھنا ” اس نیکی کی قدر کرنا سنبھال لینا چاہیے جو نیکی چل کر آپ تک آئی ہے ۔ تاکہ بغیر کسی بھاگ دوڑ تگودو کے گھر بیٹھے نیکی کرکے رب کی خوشنودی حاصل کرلیں ۔
رب کے گنج سے جب تقسیم ہوتی ہے تو نیکیاں بطور تحفہ بھی بھیجی جاتی ہیں ۔اب نیکی کا ذوق رکھنے والا خوش نصیب اس کا مستحق ٹھہرے وہ وصول لیتا ہے ۔ یہ “تحفہء نیکی ” مہمان کی صورت بھی بھیجے جاتے ہیں ۔
کم ظرف اپنی خود غرضی سے مہمان اور مہمان نوازی کو رد کرتا ہے ۔
اور با ظرف رب تعالیٰ کی خاص رحمت سنت ابراھیم سمجھ کر خوش آمدید کہتے مہمان نوازی کا دسترخوان کشادہ کر لیتا ہے ۔ روایات میں ملتا ہے حضرت ابراھیم علیہ سلام کی مہمان نوازی بہت مشہور ہے کہ وہ دسترخوان پر پہلے سے مہمان کے لیے اہتمام رکھتے اور دعا کے ساتھ انتظار کرتے تھے کہ رب تعالیٰ مہمان بھیج ۔

ہر بدتہذیب بد اخلاق ہوتا ہے اور ہر بد اخلاق کم ظرف ہوتا ہے ۔ ہر کم ظرف خود غرض بھی ہوگا مہمان اور سوالی اس کے پاس بھی جاتے ہیں لیکن خود غرض نیکی کو خود غرضی کی ترازو میں تول کر ضایع کردیتا ہے سوالی کو جھڑکی دیکر مہمان نوازی سے ہاتھ روک کر ۔

نیکی اس کے لیے بس مشقت ہی بن کر آتی ہے رحمت اور برکت نہی ۔ المیہ یہ ہے کہ آج کا میزبان بد تہذیب ہے مہمان نواز نہیں وہ سلام کا جواب رسمن تو دیتا ہے روایتن خوش آمدید نہیں کہتا جہاں سب کھانا کھاتے ہیں مہمان بھی کھالے کا حساب کتاب روا رکھتاہے۔ کیا مہمان اپنے گھر کھانا نہیں کھاتا ۔ کھانا تو وہ اپنے گھر بھی کھاتا ہے ۔ مہمان اپنی زندگی کے معمولات اور مصروفیات چھوڑ کر آتا ہے۔
رابطے اور تعلق قائم رکھنے کی سنت کو زندہ رکھتا ہے ۔
لیکن خود غرض میزبان کی نظر میں ناپسندیدہ مہمان فارغ ہوتا ہے ۔اس سے حال احوال دریافت کرنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی جاتی تو وہ خاموش ہوجاتا ہے ۔ خاموش تو وہ اپنے گھر بھی رہتا ہے ۔کیا وہ اس لائق بھی نہیں ہوتا کہ اس سے خاص کو ایک طرف رکھ کر عام سی گفتگو کی جائے ۔ عموماً یہی رویہ سننے کو ملتا ہے کہ فلاں نے یہ رویہ اپنایا جو دکھ اور دوری کا باعث بنا ۔

جبکہ بات کرنا کسے نہیں آتی آپ کسی کو خاطر میں لائیں گے تو وہ آپ سے بات کرے ۔ خود غرض میزبان کے مزاج کے موافق اگر مہمان آئے تو مہمان نوازی دیدنی ہوتی ہے کیونکہ وہاں چھپا ہوا غرض ہوتا ہے ۔
آج کا بد تہذیب میزبان جب ایسی نیکی کرنا ہی نہیں چاہتا تو وہ مہمان کونظر انداز کر نے کے ساتھ ایک بد اخلاقی اور بھی کرتا ہے ہنڈز فری کانوں میں لگا کر موبائل فون ہاتھ میں لیکر بیٹھ جاتا ہے ۔ وہ موبائل فون کو فوقیت انسان پہ دے دیتا ہے اور اللہ کے بندے کو بے عزت کرنے کے ساتھ رب کی ناراضی مول لیتا ہے ۔

بندوں کے دل دکھتے ہیں نتیجتاً رویوں میں کشیدگی رابطوں میں کمی دوری کا باعث بنتی ہے ۔ کبھی سنا کہ رب ناراض ہو تو کسی اسلحے سے مارا ہو ۔ نہیں ، اللّٰہ رب العزت بس مت مار دیتے ہیں اسکی جو اس کے بندوں کے لیے تکلیف کا باعث بنے۔ کم فہم ادراک نہیں رکھتے ۔ ایسے دنیا دارون کو رب دنیا میں ہی نعمتیں دے دلا کر فارغ کردیتے ہیں ۔

وہ مشقت نما نیکی آخرت کے لیے ثمر بار نہیں ہوتی ۔ کیا رب اور اسکی مخلوق اس روئیے کے لائق ہیں ؟؟؟ رب کو ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
پھرہوتا یوں ہے کہ نیکوکار خوف خدا رکھنے والوں کے لیے ایسے لوگ معاشرے میں مشاہداتی طور پر باعث عبرت رکھے جاتے ہیں۔ تاکہ نیکی کا سلسلہ جاری رہے ۔ مخلوق خدا کی خدمت کا سلسلہ نہ رکے ۔
حضرت امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے فرمایا۔
“جو مومن اپنے مہمان کی آواز سن کر خوش ھو اس کے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔”
سبحان اللہ کیا بخشش کا سامان ہے ۔مہمان کچھہ لینے کے لیے نہیں برکتیں خیر بانٹنے کے لیے آتا ہے اس لیے باعث برکت ہوتا ہے ۔ خدمت جیسی عظیم نعمت سے آپ کو فیضیاب کرجاتا ہے وہ خدمت مقبول ہے جس کی گواہی کوئی اور اس کی غیر موجودگی میں دے ۔

جتانے والی کی خدمت زایع ہوجاتی ہے۔ دراصل مہمان نوازی وہ توفیق ہے جو آپ کوشش سے حاصل نہیں کرسکتے یہ نعمت بطور تحفہ بھیجی جاتی ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں