551

ویلنٹائن ڈے

ویلنٹائن کی حقیقت اور پنجاب۔۔

۔۔۔۔۔۔ فرھنگ ِزوجیات و شوہریات کے مطابق ویلنٹائن کا آغاز پاکستان کے صوبہ پنجاب سے ھوا ، یہ جو کہا جاتا یے کہ اس کی ابتدا یورپ سے ہوئی یہ بات مستند نہیں ہے۔واقعہ یوں ہے کہ جب پنجابی شوھر اپنی بیویوں کے نافرمان ھوئے تو اُن کی بیویوں نے اُن کو سُدھارنے کیلئے آلہِ گول روٹی “وِیلن” کا استعمال شروع کیا۔ اس سے شوہروں کی بگڑی حرکتوں میں ایک نہایت مثبت تبدیلی پیدہ ہونا شروع ہوئی اور یوں ویلن کا استعمال۔ہر گھر میں کیا جانے لگا۔ کثرتِ استعمال کی وجہ سے اُن لمحات کو جب بیویاں شوہروں کے لئے اسے استعمال کرتیں ویلن ویلا (اوقاتِ مار) کہا جانے لگا۔ زمانے نے ترقی کی پنجابیوں کو انگریزی بولنا آئی تو پڑھے لکھے شوہروں نے اسے ویلن ٹائم کہنا شروع کر دیا۔۔۔۔ شوہروں کو بھی اللہ نے عقل دی اور شوھر اپنی بیویوں کے تشدد سے بچنے کیلئے اُن کو پھول اور تحائف دینے لگے یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زباں و بیاں میں ارتقاء ھوا اور وِیلن ٹائم کو “وِیلن ٹائن” کہا جانے لگا??تاریخ کی درستگی کہ جائے

ویلنٹائن ڈے”سے7دن پہلے ایک گفٹ شاپ میں وکیل صاحب گئے
انہوں نے40خوبصورت کارڈ خریدے اور سب پر انہوں نے لکھا

“هیلو جان!! پہچانا؟
شام کو ملو
“i lov u?”
دکاندار نے پوچھا:یہ کیا معاملہ ہے؟

تو وکیل صاحب بولے گزشتہ ویلیںٹائن ڈے پر آس پاس کی کالونی میں ایسے ہی20کارڈ بھیجے تھے
‏کچھ ہی دن میں طلاق کے چار کیس مل گئے تھے

اس بار 40 کارڈ بھیج رہا ہوں

دھندھے میں سب جائز ہے.

کیونکہ امی جان کہتی تھی
“کوئی بھی دھندہ چھوٹا نہیں ہوتا
اور دھندے سے بڑا کوئی دھرم نہیں ہوتا “

دکاندار بےہوش

(نشرمکرر)

جب امی نے مجھے بتایا کہ گلی والے رفیق صاحب کی بیٹی کی شادی چودہ فروری کو ہے تو یہ خبر مجھ پر دیسی ساختہ بم بن کر گری کیونکہ رفیق صاحب کی بیٹی کو اپنا جیون ساتھی بنانے کا اردہ کرنے کے ساتھ ساتھ دل ہی دل میں اسکے ساتھ منگنی بھی کر چکا تھا اور رفیق صاحب کو من ہی من میں اپنے سسر کے عہدے پر سرفراز کر چکا تھا اور اس ویلئنٹائن ڈے پر اظہار محبت کا مصمم ارادہ بھی کر بیٹھا تھا.? پر میرے سپنوں کا تاج محل برے طریقے سے ٹوٹ چکا تھا اگلے دن دادی نے والد صاحب کو کہا کہ “رفیق صاحب کے پاس جا کر ان سے پوچھیں ہمارے لائق کوئی خدمت ہو بتائیں”دادی نے مجھے بھی کہا کہ “لڑکے تو بھی جا ساتھ اور ٹینٹ وغیرہ کا کوئی کام اپنے ذمے لے لے.. ساتھ ہی یہ کہہ کر کلیجہ جلا دیا کہ محلے کی بچی ہے بہنوں کی طرح ہے جا میرے بچے باپ کے ساتھ جا۔۔۔۔””?میں یہ سوچ کہ ساتھ چل دیا کہ شاید شاہ رخ خان کی طرح میں بھی کام کاج کے بہانے اپنی دلہنیا لے اڑوں.. ?رفیق صاحب کے گھر پہنچے گفت و شنید کے بعد والد صاحب نے ٹینٹ وغیرہ کے لیے میری خدمات پیش کر دیں جسے رفیق صاحب نے یہ کہہ کر قبول کر لی کہ” محلے کے بچے ہیں میری بیٹی ان کی بہنوں کی طرح ہے یہ کام نہیں کر ینگے تو اور کون کرے گا” میری محبت کو بہن قرار دے کر پہلے دادی اور اب رفیق صاحب نے حملہ کیا.?جسے ناصرف مردانہ وار برداشت کیا بلکہ چہرے پر خفت زدہ مسکراہٹ سجا کر یہ بھی کہا کہ “نہیں جی ہمارا بھی کچھ فرض بنتا ہے?دل دکھی تھا رونے کی کوشش کی تو رونا نہ آیا بلکہ رونے کی کوشش میں سر دکھنے لگا. ۔?آخرکار وہ دن بھی آپہنچا جس دن میری محبت نے کسی اور کا ہو جانا تھا اور میں صبح سے ہی ٹینٹ وغیرہ کے کام میں لگا یہ سوچ رہا تھا کہ آج چودہ فروری کو سارے نوجوان اپنے جانو مانو شونو مونو کے ساتھ پیزا اڑاتے ہیں واہ رئے قسمت میں کرسیاں لگوا رہا ہوں۔??دوپہر کو کام نپٹا کر گھر آیا امی نے پوچھا کہ کیا ہوا طبیعت ٹھیک ہے میں نے کہا بس سر درد کر رہا ہے تو دادی نے فوراً کہا کہ “صبح ناشتہ ٹھیک سے نہیں کیا ہوگا بھوک کی وجہ سے گیس دماغ کو چڑھ گئی ہوگی اسے خاندانی مجرب پھکی دو۔۔۔۔امی بھاگ کے پھکی لے آئیں۔۔۔۔?میں اپنی طرف سے غم کی تصویر بنا ہوا تھا ۔۔۔پر غم تو کسی کو نظر نہیں آیا لیکن اندر کی گیس دادی کی جہاندیدہ گھاگ نطروں میں پتا نہیں کیسے آگئی. ?شام کو سب گھر والے تیار ہو کر چلے گئے میں بھی اس آس پر تیار ہونے لگا کہ کیا پتا عین نکاح کے وقت کسی بات پر بارات واپس چلی جائے تو میں کمال سعادت مندی سے رفیق صاحب کو ممکنہ دل کے دورے سے پچاتے ہوئے خود کو انکی فرزندی کے لیے پیش کردوں۔??۔۔میں تیار ہو کر گھر سے نکلا تو ستیاناس جائے گلی کے بچوں کا نالی می پتھر مارا اور نالی کے کالے پانی سے سفید کلف شدہ شلوار قمیض پر نقش ونگار بن گئے جھنجھلا کر واپس گھر آیا کپڑے بدلے اور تقریب میں پہنچ گیا.نا تو بارات واپس گئی نا ہی کوئی مسئلہ ہوا نکاح ہوگیا..??اب کھانا چلنا تھا اتنے میں رفیق صاحب کسی اولمپک کے کھلاڑی کی طرح اڑتے ہوئے میرے پاس آئے اور ایک اور ستم ڈھایا کہ دولہا کے والد بھائی وغیرہ کی میز پر کھانا میں نے پہنچانا ہے آج جب مجھے کسی ویران گوشے میں بیٹھ کر دکھی گانے سننے چاہیے تھے میں صبح سے کرسیاں لگوا رہا تھا اور اب اپنے ہی رقیب کے گھر والوں کھانا بھی ٹھونسا رہا تھا۔۔۔?رقیب کے گھر والے یا تو ازل سے بھوکے تھے یا پھر ان کے پیٹ میں کیڑے تھے کھائے ہی جارہے تھے ادھر دادی کی کھلائی پھکی سے میری بھوک عروج پر تھی بلکہ اب تو واقعی بھوک کی وجہ سے گیس ہو رہا تھا ادھر رقیب کا والد کوفتوں پر بری طرح فریفتہ ہو چکا تھا چھٹی بار ڈش پکڑا رہا تھا کہ رقیب کے والد کی گرفت ڈھیلی پڑی تو سارا سالن مجھ پر گر گیا غصہ تو بہت آیا پر خاموشی کے علاوہ کر بھی کیا سکتا تھا۔جب رقیب کے گھر والے کھا مر چکے اور میں اپنے لیے کھانا لینے گیا تو کھانا ختم ہو چکا تھا۔?۔ اتنے میں رخصتی کا شور بلند ہوا دلہا دلہن گاڑی میں بیٹھے تو گاڑی سٹارٹ نہ ہوئی رفیق صاحب نے ایک دو لڑکوں سے کہا دھکا لگاؤ ساتھ ہی مجھ پر نظر پڑی اور ہاتھ کے اشارے سے بلا لیا مجھے لگا کہ رفیق صاحب مجھے چڑانے کے لیے ایسا کر رہے ہیں میں نے ساتھ کھڑے دلہن کے کزن کو کہا چلو دھکا لگواؤ اس نے کہا کہ” میری ٹانگ پر پھوڑا نکلا ہوا ہے میں دھکا نہیں لگا سکتا..?اب میں اپنے دل کا پھوڑا کسے دکھاتا سو پیچ و تاب کھاتا دھکا لگوانے لگا کہ اچانک پاؤں پھسلا اور نالی میں چلا گیا پاؤں باہر نکالا.. جراب گیلی بوٹ پر پتا نہیں کیا الم غلم لگا تھا اب غصہ جھنجھلاہٹ کے ساتھ کراہت بھی آرہی تھی?? میں سامان سمینٹوا کر گھر آیا تو دادی نے دیکھتے ہی کہا لڑکے ایک بات تو بتا….! “”تجھے نالیاں پسند ہیں یا تم نالیوں کو پسند ہو۔ہمیشہ تم ہی نالیوں میں گرتے ہو اور جل تھل ہو کے آتے ہو ورنہ تو ہماری خاندانی تاریخ میں ایسا واقعہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملےگا۔۔”‘?میں چپ چاپ پاؤں دھو کر آیا امی سے کھانا مانگا اور اپنے کھانا نہ ملنے کی روئیداد سنائی امی فکرمند ہو گئیں کہ سوائے کل کے بچے ہوئے تھوڑے سے سالن کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔۔۔۔کیا کرتا وہ ہی کھایا تھکا ہارا سونے چلا گیا لیٹتے ہوئے آج کے دن کے بارے میں سوچنے لگا کہ کیا ویلنٹائن کا دن تھا جس میں محبوب کی شادی کی کرسیاں سیٹ کی رقیب کے گھر والوں کو کھانا کھلایا دو دفعہ نالی کے پانی سے سیراب ہوا ایک دفعہ سالن گرا محبوب کی گاڑی کو دھکا لگا کر رخصت بھی کیا.

..???(اس کہانی کے تمام کردار و واقعات فرضی ہیں کسی صاحب کی کسی بھی قسم کی مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی لہذا دل پر مت لیں)

شادی_شدہ_آصف_بھائی

صبح اٹھا تو یاد آیا کہ آج ویلنٹائن ڈے ہے خالہ نفیسہ کے لڑکے شکیل کے ساتھ پھول والے باباجی کے پاس جانا ہے تو فریش ہوکر تھری پیس پہنا کالا چشمہ لگایا ایک گھنٹے بعد پھول والے باباجی کے آستانے پر موجود تھا.آستانے پر نوجوانوں کا ایک ہجوم تھا کچھ میرے جیسے ستم رسیدہ بھی موجود تھے. باباجی کے دائیں طرف گلاب کے پھولوں کا ڈھیر پڑا تھا. ایک آیا کہنے لگا.باباجی دینو کباڑیے کی لڑکی مجھے بھاؤ نہیں دیتی آج ویلنٹائن ڈے ہے کوئی ایسا عمل کریں کہ وہ میرا پھول قبول کرلے؛..باباجی نے پھولوں کے ڈھیر سے ایک گلاب کا پھول اٹھایا اور اس پر کچھ پڑھ کر پھونک ماری اور اسے نوجوان کو دیتے ہوئے کہنے لگے.جا بچہ یہ پھول لے اور یہ جسے دے گا وہ تیرے قدموں میں ڈھیر ہوجائے گی؛..باباجی کے بائیں طرف بیٹھے آدمی نے نوجوان سے پانچ سو روپے لیے اور نوجوان ہنسی خوشی پھول ہاتھ میں پکڑے چلا گیا.باباجی میری اکلوتی گرل فرینڈ مجھے چھوڑ کر میرے امیر دوست سے سیٹ ہوگئی میرا ویلنٹائن ڈے کامیاب بنادیں ؛..بابا جی کہنے لگے.بچہ اس کے لیے مجھے ایک نہیں بلکہ دو پھونک مارنی ہوگی اور میری ایک پھونک پانچ سو روپے کی ہے تو تجھے ہزار روپے دینے ہوں گے؛..دبلے پتلے لاغر سے لڑکے نے نیفے میں اڑسے ہزار روپے کا نوٹ نکالا اور بائیں طرف بیٹھے آدمی کو دیدیا.باباجی یہ میرے پورے دس دن کی کمائی ہے جو میں نے اماں کے منگائے سودے سے کی ہے، بس دیکھنا یہ رائیگاں نہیں جانی چاہئے؛..یہ کہہ کر وہ بھی پھول لیکر چلا گیا. اسی طرح نوجوان باری باری آتے رہتے اور پھول لیکر ایک امید لیکر جاتے رہتے. اب شکیل کا نمبر تھا.باباجی میری چاروں گرل فرینڈز مجھ سے بریک اپ لےچکی ہیں آج ویلنٹائن ڈے میں چاروں کو دوبارہ پٹانا ہے تو مجھے چار پھول دیدیں؛..باباجی نے اپنے تگڑے گاہک کو دیکھا چاروں پھول پر دو دو پھونک مارکر چار ہزار وصول کرلیے. پھر میری طرف دیکھنے لگے.اگر تو بھی بیوی سے چھپ کر ویلنٹائن ڈے منانا چاہتا ہے تو اس کے لیے مجھے ایک پھول پر چار پھونکیں مارنی ہوں گی بول کتنے پھول چاہیے؟..یہ سن کر میرے دل میں گدگدی ہونے لگی پرس میں رکھے پٹرول کے لیے دو ہزار روپے رکھے نکال کر آدمی کو پکڑادیے اور ایک پھول میں بھی لیکر باہر نکل آیا.شمیم خالہ کی جوان بیٹی رضیہ جو چھ ماہ قبل ہی بیوہ ہوئی تھی اس کا سوچ لیا. شمیم خالہ فیکٹری سے شام ساڑے چھ بجے گھر آتی تھیں تو میںشام چار بجے ان کے گھر پہنچ گیا بیل بجائی، جیب سے پھول نکالا اور رضیہ کے دروازہ کھولنے کا انتظار کرنے لگا.دروازہ کھلا تو سامنے رضیہ کے بجائےخالہ شمیم کھڑی تھیں،انہوں نے میرے ہاتھ سے گلاب کا پھول لےلیا. یہ دیکھ کر میں نے الٹے پاؤں دوڑ لگادی. راستے میں شکیل مل گیا، اسے بتایا تو شکیل گھبراگیا.آصف بھائی پھول والے باباجی کی پھونک تو واقعی کمال کی ہے میری چاروں گرل فرینڈز نے پھول قبول کرلیے ہیں اور اب دوبارہ ہماری لو اسٹوریشروع ہوچکی ہے، اب آپ کا تو اللہ ہی حافظ ہے، شمیم خالہ نے آپ کو چھوڑنا نہیں گھر تک بھی پہنچ سکتی ہیں؛..یہ سن کر تو میرا خون خشک ہوگیا.یار یہ تو بہت برا ہوجائے گا اب کیا کروں؟..آصف بھائی یہ تو باباجی ہی بتاسکتے ہیں تو پہلے آپ گھر جائیں اور کم از کم دس ہزار روپے لیکر آئیں؛..میں نے ڈرتے ڈرتے گھر کی طرف قدم بڑھادیے، چاروں قل پڑھ کر دروازے کا لاک کھولا اور گھر میں قدم رکھ دیا اوپر جیسے ہی لاؤنج میں قدم رکھامیرے قدموں کے نیچے سے زمین نکل گئی، وہاں خالہ شمیم بیٹھی مجھے پڑے پیار سے دیکھ رہی تھیں. فوراً الٹے پاؤں دوڑ لگادی اورہانپتا کانپتا شکیل کے پاس پہنچ گیا. شکیل کو سارا ماجرا بتادیا. شکیل نے پرس کھول کر مجھے دکھادیا، صرف پندرہ سو روپے ہی موجود تھے.آصف بھائی میرے پاس بس یہی پندرہ سو روپے ہیں اور یہ آپ کو دیکر اپنا ویلنٹائن ڈے خراب نہیں کرسکتا؛..یہ کہہ کر وہ پتلی گلی سے نکل گیا اور میں وہیں سر پکڑ کر بیٹھ گیا. آدھے گھنٹے سوچتا رہا لیکن کوئی راستہ نہیں نظر آیا تو مجبوراً آپ لوگوں سے مدد مانگ رہا ہوں،پلیز میری حالت پر رحم کیجیے اور دس ہزار روپے کی مدد کردیں، نہیں تو میراویلنٹائن ڈے ہسپتال میں گزرے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں