480

گویا میری ختنہ کی رسم ادا کی گئی ہو

(بابا جیونا)
میں اکثر اپنے آبائی گاؤں غلیانوالہ ٹبہ کے بارے سوچتا رہتا ہوں ۔ جہاں میں اور میرے بہن بھائی پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک پڑھتے رہے۔ لیکن کبھی میری تشنہ لبی ختم نہ ہوئی ۔ میرا دل کرتا کوئی مجھے میرے محلے کی گلیوں بازاروں بڑے بزرگوں اور ان دوستوں کے بارے سب کچھ بتائے جن کے ساتھ مل کر میں کھیلتا رہا ۔
جن کے ساتھ مل کر نہر 4/R پہ نہایاکرتا تھا۔ جن کی رفاقت میں نہر پہ کیکروں ٹاہلیوں میں آباد طوطے اور الوؤں کے بچے نکالا کرتا تھا۔ مولیاں شلجم کھایا کرتا تھا ۔ چوری گنے توڑ کربھاگ جایا کرتا تھا۔
لالہ کسائی، باباتاج ،ماسی پھتے، ماسی کرشیداں، ماسی چھیداں، ماسی جیجاں، اسحاق دکاندار، سید ہوٹل والا، زبیدہ تیلن ،چاچا گونگا۔ چھیدا، کان کٹی، جاناں ،ساجدلوہلا، جفری، اسلم عباس ، رفاقت ، پھاکو، منیردکاندار، رحمت علی ، محمود مودا،عمران کاکا ، اصغرشاہ،طفیل چکی والا ، یہ سب میرے اپنے لوگ تھے ۔ اتنے اپنے کہ اپنی شرارتوں کی وجہ سے ان میں سے اکثر بڑے بزرگوں کی گالیاں اور ڈانٹ بھی تبرک سمجھ کر سہہ جایا کرتا تھا۔پرانے دور کی ڈھلتی چھاؤں جیسے تھے یہ لوگ۔بے شک محنت مزدوری کرتے تھے لیکن کتنے سچے سُچے بھلے مانس خلوص کے پیکر شفقت سے لبریزاور شہد کی طرح سینکڑوں گنوں سے آراستہ تھے یہ لوگ ، قسم سے کتنے بھلے لوگ تھے۔ یہ لوگ جہاں بھی ہیں جس حال میں بھی ہیں اللہ ان پر اپنی خاص رحمتیں نازل فرمائے آمین۔ جب میں نے تملی کا نمبر ملایا اور اس نے ہیلو کہا تو میرے سامنے میرا بچپن ایک فلم کی طرح دماغ کے ملٹی میڈیا پر سلائیڈوں کی صورت چلنے لگا ۔ تملی کی ہیلو سے مجھے اپنے محلے کے کچے ویہڑوں سے اٹھتی چکنی مٹی کے پوچے کی بھینی بھینی خوشبو آنے لگی ۔سید کے ہوٹل پہ محلے کے ویہلے نکمے لفنگے بیویوں کے ستائے ہوئے شوہر چاری تاش کے پتے کھیلتے اور شرطیں لگا کر دودھ پتیاں پیتے افیمی اور چرسی نظر آنے لگے ۔، میرا تھیلے کا بستہ ، لکڑی کی تختی ،اول جماعت کا قاعدہ جس کا سرورق ایک بچے کی تصویر ہوا کرتی تھی جو اپنی بکری کو چارہ
کھلا رہا تھا،”چنوں منوں دو تھے چوزے “ نظم کے اشعار قطرہ قطرہ بن کر میرے تخیلات کی دھرتی پر گرنے لگے یادوں کے پھول اور شگوفے چھوئی موئی کے پتوں کی طرح کھلنے لگے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے میں بچپن کی یادوں کے سنہرے اور دل گداز نشیب وفراز میں گم ہوتا گیا ۔ ماسٹر مختار صاحب کی پدرانہ شفقت سے لبریز مگر گرج دار آواز بالکل اسی طرح میرے وجود میں جھرجھری پیدا کرگئی جس طرح میں دوسری جماعت میں بنا چاردیواری کے اپنے کچے سکول کے اکلوتے درخت کیکر کے نیچھے ریت کے ٹیلے پر بیٹھا کانپ جایا کرتا تھا۔
مجھے سلطان راہی کی فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا ۔ میرا بول چال رہن سہن لب لہجہ دیکھ کر کوئی بھی یہ اندازہ کر سکتا تھا کہ میرے اندر سلطان راہی بن جانے کا جنون کس حد تک سرائیت کرچکا تھا۔
تملی نے جب مجھے کیڑے کے کاٹنے کا واقعہ یاد کروایا تو میری ہنسی ہی نہیں رک رہی تھی ،ایک لمحے کے لیے ایسا لگا ہم دونوں اسی پرائمری سکول میں پہنچ گئے ہیں جہاں ریت کے ٹیلے پہ ہماری کلاس لگا کرتی تھی۔
جب ہمارے سکول میں پہاڑے یاد کرنے کا پیریڈ ہوتا تو میری کلاس کے تمام بچے پڑھائی چھوڑ کر میرے گرد جمع ہوجایا کرتے تھے۔ میں دائرے کی شکل میں بیٹھے بچوں کے درمیان میں آلتی پالتی مار کر بیٹھ جایا کرتا ایک دو بار پہاڑے دھرانے کے بعد اپنے ہم جماعت بچوں کو سلطان راہی کی فلموں کی اسٹوریاں سنایا کرتا مجھے یاد ہے ایک بار میں ریت کے ٹیلے پر ٹانگیں پسارے اپنے اردگر دائرہ بنائے بیٹھے بچوں کو بڑے انہماک سے ساتھ سلطان راہی کی فلم ”بشیرا“کی اسٹوری سنا رہا تھا بڑے انصاف کے ساتھ سلطان راہی کے ڈائیلاگ کی ادائیگی کررہا تھا۔ ہاتھوں کے اشاروں ، چہرے کے انداز آواز کے اتار چڑھاؤ گردن کبھی دائیں گھما کر اور کبھی بائیں، چھاتی چوڑی کرکے کبھی مٹھیاں بندکرکے اور کبھی پنجے کھول کر ایکشن میں مصروف تھا کہ اچانک میں ریت پر لیٹنے لگا چیخنے لگا بچوں نے سمجھا شاید یہ بھی کوئی بشیرا فلم کا سین ہوگا، حالاں کہ اسٹوری میں تو اس وقت بشیرے کی بہن گانا گا رہی

تھی ”کندھا ڈولی نوں دے جائیں ویر وے “ اور سلطان راہی اپنی بہن کی ڈولی کو کندھا دینے آرہا تھا لیکن بچے تو محضوض ہورہے تھے انھیں احساس ہی نہ ہوا کہ یہ فلم کا کوئی سین ہے یا اسٹوری سنانے والے کے ساتھ کوئی سین ہوگیا ہے ۔ جب میں لوٹ پوٹ ہونے لگا میں نے سچ مچ رونا چیخنا اور ریت پہ لیٹا شروع کردیا جلدی جلدی میں نے شلوار اتار کر پھینک دی تو کسی بچے نے دوڑ کر دور کرسی میز لگاکر بیٹھے ماسٹر مختار صاحب کوبلایا۔
وہ بھاگ کر آئے اور مجھے پکڑ کر کہنے لگے” سلطان راہی صاحب کیا ہوا“؟ اس دن مجھے پتہ چلا کہ میرے استاد صاحب کو بھی پتہ ہے کہ میں پہاڑے یاد کروانے کی بجائے بچوں کو سلطان راہی کی اسٹوریاں سناتا ہوں ، تو میں نے اپنے مثانے کی طرف اشارہ کرکے چلاتے ہوئے ایک ہی سانس میں دوتین بار کہا سر جی بچھو نے کاٹ لیا بچھو نے کاٹ لیا انھوں نے دوسرے لڑکوں کو میرے بازو اور ٹانگیں پکڑا کر زمین پہ لٹا دیا اور غور سے دیکھا تو میرے مثانے پہ لمبی ٹانگوں والے کیڑنے نے دندی کاٹ رکھی ہے ۔ جب وہ کیڑے کو پکڑ کر اتارنے کی کوشش کرتے تو میں اور زور سے چلاتا ۔
میرے کلاس فیلو تالیاں بجا بجا کر بشیرا فلم کی اسٹوری سے بھی زیادہ لطف اندوز ہورہے تھے ۔ مختار صاحب بار بار ڈانٹ کر بچوں کو چپ کرانے کو کوشش کرتے مگر بچے تو ”شیطان کے پرکالے ہوتے ہیں“۔ جب ہنسنے لگتے ہیں تو پھر کوئی ان کو روک نہیں سکتا ایون کہ سکول ماسٹر بھی نہیں ،
آخر مختار صاحب نے ماچس منگوائی اور دیاسلائی جلا کر کیڑے کے قریب کی تو اس نے اپنے نوکیلے اور کرین کی طرح کے مضبوط ترچھے ٹیڑھے دانت میرے مثانے کی چمڑی سے نکالے اور میری جان بخشی ہوئی کچھ دن کے لیے میرے لوئر نشیب وفراز پھول کر موٹے ہوگئے اور چلنا پھرنا میرے لیے دشوار رہا گویا میری ختنہ کی رسم ادا کی گئی ہو،۔

کیٹاگری میں : ادب

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں