203

کسان کے حال پر رحم کریں

(تحریر چوھدری طارق جمیل)
مؤدبانہ گذارش اپنے ان نادان بھائیوں سے جو کہ گندم کا ریٹ بڑھانے کی مخالفت کر رہے ہیں۔
کیا کسانوں کا گھر بار نہی ہے
کیا کسانوں کے بچوں کی پرورش حکومت سرکاری خرچے پر کرتی ہے
کیا کسانوں کو اشیاء ضرورت ( بچوں کی فیسیں۔بجلی کا بل ۔پہننے کے کپڑے۔بیماری پر دوائی۔ڈاکٹر کی فیس۔ڈیزل۔زرعی ادویات۔کھاد۔شادی غمی ) کی صورت میں حکومت سبسڈی دیتی ہے۔
گزشتہ سال کسان سے 1400 روپے من میں خریدی گئی گندم 2400 من میں فروخت ہو رہی ہے ۔کیا یہ کسان سے زیادتی نہی.
2400 روپے من گندم فروخت کرنے والوں کا حکومت نے کیا بگاڑ لیا۔کسی ایک کو بھی گرفتار کیا۔زور چلا تو صرف کسان پر جس سے زبردستی گندم سرکار نے خرید لی۔
کیا منافع کمانا صرف مڈل مین اور صنعتکار کا ہی حق ہے۔
اپنی محنت سے پیدا کردہ جنس کا ریٹ مقرر کرنا کیا کسان کا حق نہی۔
کوئی ایک مثال دیجئے کسی صنعتکار نے کوئی چیز بنائی ہو اور اس کا ریٹ حکومت نے مقرر کیا ہو۔
انسانی جان بچانے والی دوائیں بھی ایک بنیادی ضرورت ہیں انکی قیمتیں تو پچھلے چند دنوں میں 200 سے 300 فیصد بڑھا دی گئیں کہا گیا کے پیداواری لاگت بڑھ گئی۔اور بزنس مین کا یہ حق ہے۔
کیا کسانوں کیلئے پیداواری لاگت میں کمی کر دی گئی ہے۔
??? خدارا اکنامکس کے اصول سب کیلئے یکساں رکھیں۔وگرنہ معاشرے کے دوسرے طبقات اور کسانوں میں اس طرح کے امتیازی سلوک سے دوریاں بڑھتی جارہی ہیں

کیٹاگری میں : News

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں