258

ہم وکلاء فرشتے نہیں

چوہدری طارق جمیل

ہم وکلاء فرشتے نہیں ، وکلاء کے چیمبر گرا کر انہیں جان بوجھ کر مشتعل کیا گیا ۔ وکلاء قومی خزانے پر بوجھ نہیں ۔
اسلام آباد انتظامیہ نے سیشن جج کے حکم پر ایف-8 مرکز میں وکلا کے چیمبر رات کی تاریکی میں مسمار کردیئے۔ چیمبرز میں پڑی کیس فائلیں ضائع کردی گیئں۔ وکلا سراپا احتجاج ھوئے تو پولیس نے انہیں بزرو طاقت روکنے کی کوشش کی جس پر وکلا اشتعال میں آگئے۔ وکلا پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی عدالت اور چیمبر کے گھیراو اور توڑ پھوڑ کا الزام۔ وکلا کیخلاف ایف آئی آر درج کرکے گرفتاریوں کے لئے چھاپے اور 40 سے زائد وکلا کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کا فیصلہ۔ سیشن جج اسلام آباد نے جنوری کے پہلے ھفتے میں CDA کو چٹھی لکھ کر چیمبرز مسمار کرنے کا حکم دیا تھا۔ پھر سارا دن الیکٹرانک میڈیا پر وکلا گردی کی خبریں چلتی رہیں، پرائم ٹائم کے ٹاک شوز میں وکلا کیخلاف انتہائی نازیبا زبان استعمال کی گئی مگر وکلا کی صوبائی تنظیموں اور پاکستان بار کونسل اس سارے معاملے میں خاموش رھیں۔
وکلا نے اگر سرکاری زمین پر چیمبرز بنا کر غلطی کی تو سیشن جج اسلام آباد نے بھی بار نمائندگان سے بات کئے بنا انتہائی قدم اٹھایا جس کی حوصلہ افزائی کسی صورت نہیں کی جا سکتی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے قیام کے بعد وکلا کے چیمبرز کے لئے حکومت اور ہائی کورٹ نے کوئی جگہ مختص نہیں کی جس کی وجہ سے وکلا مہنگے ترین پلازوں میں دفاتر کرائے پر لیکر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ بار نمائندگان کی مشاورت سے چیمبرز کے لئے وکلا کی تعداد کے مطابق اراضی الاٹ کرتی اور وقت کے ساتھ وکلا کی بڑھتی ھوئی تعداد کے حساب سے اراضی مختص کی جاتی مگر آج تک کسی حکومت نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی۔ چیمبرز گرانے تھے تو وکلا کو اپنی کیس فائلز اٹھانے کا وقت دیا جاتا اور دن کے اجالے میں یہ کام کیا جاتا اور چیمبرز کے لئے متبادل جگہ الاٹ کی جاتی۔ چیمبرز گرانے پہ احتجاج اسلام آباد کے متاثر وکلا نے کیا مگر میڈیا سارا دن پاکستان بھر کے وکلا کو گالیاں دیتا رھا جو کسی طور مناسب نہیں۔ پاکستان میں انصاف کی مسندوں پہ بیٹھے منصف خود بھی وکیل ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وکالت ھی کرنی ھے اس کے باوجود وکلا کیخلاف عدالتوں کا رویہ انتہائی تضحیک آمیز ھوتا ھے۔ کل کے واقعہ کے بعد چیف جسٹس اسلام آباد نے عدالتیں تا حکم ثانی بند کردیں۔ جو پاکستان کی عدالتی تاریخ کا انوکھا واقعہ ھے۔ کیا آئین میں عدالتوں کو اس طرح بند کرنے کی کوئی گنجائش ھے ؟ اگر آئینی عدالت کا چیف جسٹس آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ھو تو اس کیخلاف آئین سے روگردانی پر کوئی کاروائی گو سکتی ھے ؟؟
معاملہ کو افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہیئے۔ وکلا کے چیمبرز کے لئے اراضی مختص کرکے، وکلا کیخلاف درج مقدمات ختم کرکے صورت حال کو مزید سنگین ھونے سے بچایا جا سکتا ھے۔ اگر معاملہ افہام و تفہیم سے حل نہ کیا گیا تو وکلا کے احتجاج میں شدت آنے کا اندیشہ ھے۔ میڈیا پہ وکلا کیخلاف توہین آمیز الفاظ کے استعمال کو روکنے کے لئے صوبائی بار کونسلز اور پاکستان بار کونسل کا سخت ترین رد عمل آنا چاہیئے۔ وکلا متحد تھے، ہیں اور رہیں گے۔
وکلاء اتحاد زندہ آبا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں