آج کل سپریم کورٹ کے احکامات کو جواز بنا کر پنجاب بھر میں قبضہ مافیا ناجائز تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن کیا جا رہا ہے سپریم کورٹ نے تو حکم دیا تھا کہ ملک بھر سے قبضہ مافیا جنھوں نے مربعے کے مربعے اور کنالوں کے کنال سرکاری اراضی پر قبضہ کر کے ان کو ٹاونز کی شکل دے کر فروخت کر رہے ہیں یا اپنے مصرف میں رکھے ہوئے ہیں کے خلاف ایکشن لے کر ان سے سرکاری رقبہ واگزار کرایا جائے لیکن پنجاب کی بیورو کریسی جو بزدار حکومت سے ناراض لگتی ہے نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو جواز بنا کر نئے گل کھلانے شروع کردیئے ہیں مختلف اضلاع میں وہاں کی تحصیلوں کے اسسٹنٹ کمشنرز اپنے پورے لاو لشکر اور کروفر کے ساتھ کچی آبادیوں میں داخل ہو کر لوگوں کے سال ہا سال سے بنے پختہ و ان پختہ مکانوں کو گرا کر اپنی انا کو تسکین پہنچا رہے ہیں اور میڈیا میں و افسران بالا کو کروڑوں روپے مالیت کی اراضی واگزار کرانے کی رپورٹ دے رہے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے جن بڑے مگر مچھوں پر سپریم کورٹ نے ہاتھ ڈالنے کا حکم دیا ہے ان کی طرف کوئی مہنہ نہی کرتا کیونکہ قبضہ مافیا اتنا مضبوط اور طاقت ور ہو چکا ہے کہ ان پر ہاتھ ڈالنا ناممکن ہو گیا ہے اب اس مہم میں شامت ان غریب بے بس لاچار لوگوں کی اور بیوہ و بے بس عورتوں کی آجاتی ہے جنھوں نے اپنے چکوک میں کچی آبادیوں میں متعلقہ پٹواری گرداور نائب تحصیلدار کو ہمہ قسم کا نزرانہ دے کر ان کو خوش کرنے ان کی مرضی سے اپنے سر کو چھپانے کے لیے چند مرلوں پر مشتعمل رہائش گاہ بنائی ہوئی ہے اس رہائش گاہ کو بنانے کے لیے برسوں کے عرصے پر محیط ان خاندانوں کو جن مصائب و مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے وہ سب کے لیے کھلی کتاب کی طرح ہے کوئی کمیٹی ڈال کر کوئی اپنے زیور جانور جمع پونجی بیچ کر سر چھپانے کی جگہ بناتا ہے لیکن بیورو کریسی کے ایک ہی حکم نامے سے ان خاندانوں پر قیامت صغری برپا کردی جاتی ہے ٹریکٹروں ایکسی ویٹروں سے ان کے مکانات سر کی چھتوں کو ایک ہی جنبش میں زمین بوس کر دیا جاتا ہے اور اس موقعہ پر جو روح فرسا مناظر سامنے آتے ہیں ان کو دیکھ کر روح تڑپ اٹھتی ہے خواتین ننگے سر ننگے پاوں افسران کے قدموں میں پڑ کر ہاتھ جوڑ کر اپنے سر کی چھت کو بچانے کے لیے آہ و بکا کرتی ہیں معصوم بچے جب سکول سے چھٹی کرکے گھر واپس آتے ہیں تو وہ اپنے گھر کو ملبے کا ڈھیر دیکھتے ہیں اس منظر کو دیکھ کر ان کے معصوم ذہنوں میں جو بیتتی ہو گی وہ کسی المیہ سے کم نہی ہے اس مہم کے دوران تین روز پہلے حاصل پور ضلع بھاول پور کے علاقہ 19 فورڈ واہ میں جو کچھ ہوا اس نے انسانیت کو ننگا کردیا اور لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا لوگ ایک عورت کی آہ و بکا اور اپنے آشیانے کو بچانے کے لیے دردناک انداز میں منت سماجت کو دیکھ کر اپنی آنکھوں پر قابو نہ پا سکے لوگ تو لوگ موقع پر موجود سرکاری ملازمین صحافی پولیس کی لیڈی کانسٹیبل بھی اس منظر کو دیکھ کر آبدیدہ ہو گئی غریب عورت کے سات مرلہ کے آشیانے کو تو ملیا میٹ کردیا گیا لیکن شہر میں کروڑوں روپے کی سرکاری اراضی جن پر بڑے بڑے مگرمچھوں نے قبضے کر رکھے ہیں ان کونظر نہی آتے اگر دیکھا جائے تو علاقے کا پٹواری گرداور سب سے بڑے قبضہ مافیا ہیں جو طمع نفسانی کی خاطر اپنے علاقوں میں قبضے کراتے ہیں غریبوں کا خون نچوڑ کر پہلے ان کو قبضہ کی اجازت دیتے ہیں جب سال ہا سال کے بعد غریب اس جگہ اپنی تمام تر پونجی لگا دیتا ہے تو پھر یہ افسران کے ایکسی ویٹر لے کر پہنچ جاتے ہیں حکومت کو چاہیے جس جگہ جس آبادی میں قبضے ہورہے ہیں وہاں کے متعلقہ پٹواری کو حوالات میں دیاجائے تو بہتری آسکتی ہے حکومت نے 2018 میں واضح طور پر حکم دیا تھا کہ کسی بھی کچی آبادی میں رہائشی مکان کو مسمسار نہ کیا جائے لیکن اس حکم نامے کی بھی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں وزیر اعظم پاکستان کو وزیر اعلی پنجاب کو چاہیے کہ کچی آبادیوں میں جو لوگ مستقل طور پر رہائش پزیر ہیں ان کے مکانات کو نہ گرایا جائے بلکہ ان سے اراضی کی قیمت لے کر اراضی ان کے نام کردی جائے یہ ریاست مدینہ کی طرف پہلا قدم ہو گا-
233