580

موت کا خوف

از قلم:محمد شاہد اقبال

کرونا وائرس نامی وبا نے اس وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے جس کے نتیجے میں خوف اور دہشت کی ایک فضا قائم ہوچکی ہے ۔ ہمارے ملک کے طول و عرض بھی اس دہشت سے لرزہ بر اندام ہیں۔ ہر وہ چہرہ جسے معمولی سی بھی آگاہی میسر ہے، موت کے خوف سے مرجھایا ہوا ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر دور دراز کے وہ علاقے جہاں تعلیم کم ہے، ذرائع رسل و رسائل محدود ہیں، وہاں کے انجان لوگ ابھی تک خوف کے خونی پنجوں سے آزاد پھر رہے ہیں ۔تادم تحریر کرونا کی تیسری شدید لہر سے ملکی سطح پر نہ صرف ہیلتھ ایمرجنسی نافذ ہے بلکہ سکول، کالجز بند کر دیے گئے ہیں، ہر طرح کی عوامی اجتماعات اور تقریبات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ کچھ شہروں میں سمارٹ لاک ڈاؤن تو کچھ میں مائیکرو سمارٹ لاک ڈاؤن لگ چکا ہے ۔ جبکہ کچھ شہر مکمل بند کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ اللہ پاک کرے گا، بہت جلد اس آفت ناگہاں سے پیارے پاکستان سمیت دنیا بھر کی جان چھوٹ جائے گی ۔ ان شاء اللہ

اس موذی وائرس کی وجوہات، تدارک اور احتیاطی تدابیر پر اتنی بات ہو چکی ہے کہ مزید بات کرنے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہونے والا لیکن جو گُھن ہمیں اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے، ہماری معاشرتی زندگی ہماری اقدار، ہماری سوچ اور ہمارے رویوں کو دھڑا دھڑ تباہ و برباد کیے جا رہا ہے، وہ ہے حق اور سچ بات کا نہ کہنا یا غلط ہوتا دیکھ کر خاموش رہنا کہ چھوڑو یار ہمیں کیا لینا دینا…..
جی ہاں یہ وہ گناہ ہے جو اجتماعی گناہوں میں شامل ہوتا ہے اور جب کوئی قوم ایسے اجتماعی گناہوں میں مبتلا ہو جائے جنہیں وہ گناہ ہی نہ سمجھتی ہو تو پھر اس پر یہ کرونا یا اس سے ملتے جلتے عذاب آتے ہی رہتے ہیں ۔ اللہ پاک ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے اور اجتماعی گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین
اوپری تمہید کی ایک ہلکی سی جھلک مجھے پچھلے دنوں اپنے گاؤں میں نظر آئی اور بدقسمتی سے پورا گاؤں اس پر خاموش ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
ہمارے گاؤں کے داخلی راستے پر شہر خموشاں آباد ہے جو ہر گزرتے ہوئے نفس کو اس کا اصل مقام یاد دلاتا رہتا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ کام کے سلسلے میں کچھ دن باہر رہنے کے بعد جب میں گاؤں لوٹا تو مجھے اس شہر خموشاں میں بے حسی اور ویرانی ناچتی نظر آئیں۔ میں دہل کر رہ گیا…..
حقیقت حال معلوم کرنے پر یہ عقد کھلا کہ ایک صاحب حیثیت نے چار دیواری تعمیر کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے اور اس نے ہی قبرستان میں موجود قیمتی درخت(کم از کم کم تخمینہ لاگت 2 لاکھ روپے) بیچ ڈالے ہیں تاکہ کچھ مدد مل سکے….
لیکن بے حسی اور بے خوفی کی انتہا دیکھیں کہ خاطر خواہ عرصہ گزرنے کے باوجود بھی بات مٹی کی چند ٹرالیوں سے اوپر نہیں جا سکی جو لوگوں کے منہ بند کرنے اور یہ جھانسہ دینے کی ناکام کوشش سے زیادہ کچھ نہیں کہ چاردیواری کا کام شروع کر دیا گیا ہے…..

اسی طرح گاؤں سے باہر ایک اور متمول زمیندار نے ایک مدفون بزرگ کی درگاہ پر لگے قیمتی درختوں پر ہاتھ صاف کر دیے ہیں۔ میں جب ان سے بذات خود اس کاروائی کی حقیقت معلوم کرنے پہنچا تو وہ تو دستیاب نہیں ہو سکے لیکن ان کے ایک مزارع نے انکی نیت اور سوچ سے پردہ فاش کیا ہے جو کچھ یوں ہے،
“موصوف اس جگہ کی renovation کا ارادہ رکھتے ہیں اور ایک عدد متولی تعینات کر دیا گیا جس کے ذمہ یہاں ایک عدد مسجد کی تعمیر ہے اور اپنا گھر بنانا بھی۔ جسکے بعد سالانہ عرس اور ایسی تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا جس کی مدد سے آمدن میں روز بروز اضافہ متوقع ہو، بزرگ کی کرامات کی تشہیر منظم انداز سے کی جائے گی اور درگاہ کی گدی نشینی والی خالی پوسٹ کو پر کیا جائے گا “
اور حقیقت حال دیکھیں کہ اس بات کو بھی مہینوں گذر چکے لیکن بات درخت کاٹ کر بیچنے اور پیٹ کے جہنم کو بھرنے سے آگے بڑھتی نظر نہیں آرہی۔ ہاں ایک فرق ضرور پڑا ہے کہ وہاں موجود ایک متبرک درخت جس کی شاخوں پر لٹکے چکن پاکس سے متاثرہ ان بچوں کے کپڑے اتار لیے گئے ہیں جنہیں یہاں اس عقیدے اور سوچ کے تحت لایا جاتا ہے کہ وہاں موجود نل پر نہانے اور پہنے ہوئے کپڑے اتار کر اس درخت کی شاخوں سے باندھنے سے چکن پاکس کا مرض غائب ہو جاتا ہے ۔ جہاں تک مجھے لگتا ہے کہ یہ سب بھی اس آخری اکلوتے درخت کو اکھاڑ پھینکنے کی تیاری کا حصہ ہے….

یہ اجتماعی بھوک اور بے حسی کی ایک ننگی مثال ہے۔
ہم موت کے خوف میں مبتلا ہوتے تو یہ اور ان جیسی لاتعداد بیماریوں پر بھی غور کرتے اور ان کے تدارک میں اپنا حصہ مقدور بھر ڈالتے۔ لیکن نہیں!!!! ہم بری الذمہ ہیں کیونکہ ہم نے یہ سب تھوڑی نہ کیا ہے؟ یہ تو ان لوگوں کا قصور ہے جو یہ سب کرتے پھرتے ہیں…..
اس طرح کی سوچ اور رویے کے بعد بھی اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں اور اس طرح کی آسمانی آفات اور عذاب کے حق دار نہیں تو پھر ہماری عقل پر ماتم کیا جانا چاہیے۔اور اس وقت کا انتظار جب قدرت خداوندی اپنی سنت کے عین مطابق بےکار اور بےحس لوگوں کی جگہ کارآمد اور انسانیت کے لیے سود مند لوگوں کے ساتھ ہمیں replace کر دے گی۔

استغفراللہ ربی من كل ذنب و اتوب اليه. آمين

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں