258

اظہار خیال

(شعیب نوری بحریہ ٹاؤن کراچی)

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم اسلام وعلیکم دوستو !

دوپہر لنچ کا ٹائم تھا تو میرے آفس کے بالکل سامنے سے مین الیکٹرک وائر گزر رہی ہے جس میں پچھلے دو دن سے کوئی مسلئہ چل رہا تھا تو اسی وجہ سے لیبر کھدائی کا کام کر رہی تھی تو آج میں دوپہر کو جب آفس سے نکلا تو مین ڈور کے بالکل ساتھ ہی ایک لڑکا نیچے زمین پر بیٹھا اپنا چھوٹا سا ڈائننگ ٹیبل لگائے بیٹھا کھانا کھا رہا تھا دیکھ کر بڑا عجیب سا محسوس ہوا کہ یہ کیا ہے ایام جاہلیت کو مد نظر رکھتے ہوئے سوچوں تو ایک کمتر غریب اور حقیر سا انسان ہے لیکن اگر دورِ حاضر کو مدےنظر رکھتے ہوئے دیکھوں اپنے آئینے میں تو اس سے بڑا کوئی انسان نہیں جس نے ہمارے پاؤں کی زمین کو اپنا دستر خواں بنایا ہوا ہے وہ دستر خواں جو اس کی ساری داستان اس کا ظرف سب کچھ بے زبانی کی زباں سے بیان کر رہا ہے اس کے چہرے کے اطمینان سے پیچھے کی ہلچل میں دیکھ رہا تھا بظاہر سکوں تھا لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟ نہ بولنا ہی بہتر ہے بہت سی جگہوں پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!! کیوں کچھ اظہار کچھ خیالات کچھ مناظر ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہر رائیٹر لکھ نہیں سکتا ہر مصور رنگوں میں دیکھا نہیں سکتا اور ہر شاعر چاہتے ہوئے بھی اپنی شاعری میں بیاں کر نہیں سکتا .. خیر قصہ مختصر………….. میں جیسے ہی اس کے پاس گیا تو اس نے مجھے غور سے دیکھا اور جانتا تھا کہ میں کون ہوں لیکن شاید چاہتے ہوئے بھی نہ کہہ پایا کہ آئیں بیٹھیں سر کھانا کھائیں اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا میں خود اس کے ساتھ وہیں بیٹھ گیا اور ایامِ جاہلیت کے مطابق ایک لقمہ حقارت کا لیا اور کھایا جو بظاہر لقمہ حقارت تھا لیکن میری اور اس کے نظر میں وہ لقمہِ محبت تھا مساوات کا لقمہ تھا عاجزی انکساری کا لقمہ تھا انسانیت میں چھپی اس اُنس کا لقمہ تھا جس اُنس پر میرا ہمارا تمہارا سب کا وجود قائم کیا گیا اور جس مقصد کے لیا قائم ہوا وہ مقصد اُنس کی تھا کہ عبادت ریاضت سے بڑھ کر اگر کوئی چیز ہے تو وہ اُنس ہے جس پر ہمارا ڈھانچہ کھڑا ہوا اور یہ لقمہ اُنس کا تھا نہ کہ روٹی کا نہ کہ نفرت کا نہ کہ امیری غریبی کا نہ کہ اونچ نیچ کا وہ لقمہ کسی مزدور کی دن بھر کی تھکن اور اس احساس کا تھا کہ میں مزدور ہوں غریب ہوں وہ غریب جس کی غریبی کی رگوں میں بہنے والا خون رنگت میں بھی بالکل امیری کی رگوں میں بہنے والے خون سا ہے وہ غریب جس کی غریبی کا نوالہ بھی بالکل امیری کے نوالے سا تو پھر کون سی امیری اور غریبی ذہنوں کی تنگی کا نام ہی امیری اور غریبی ہے بس اور کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر دو چار نوالے لگانے کے بعد اچانک میری نظر اس کے چہرے پر پڑی تو محسوس ہوا کہ اس کی آنکھوں میں پانی ہے کیونکہ جذبات احساسات اور محبت کو جب بیاں کرنے کے لیے لفظ کم۔ پڑھ جائیں تو وہ آنسو بن کر بیاں ہونا شروع ہو جاتے ہیں اس کیفیت کو دیکھ کر میں فوراً رک گیا ارے……..!!!!!! بھائی کیا ہوا آپ کو ڈر ہے کہیں باتوں باتوں میں میں آپ کی بھوک تو نہیں کھا گیا۔۔۔۔۔۔؟؟؟ جی نہیں سر!!!!!!!! بڑی شائستگی سے جواب دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس سر ایسے ہی کچھ یاد آ گیا تھا زندگی کی کچھ حقیقتیں کچھ سچائیاں کچھ پل حالات یا سماج کی کچھ تلخیاں اس فلم کی طرح آنکھوں سے ابھی ابھی گزر گئیں اور آنکھیں نا چاہتے ہوئے بھی بھر آئیں جو سالوں سے کٹھن چبھن اور طنز سہہ سہہ کر صحرا ہو گئی تھیں آج محبت کی ایک ضرب نے پھر سے انہیں سراب کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سر جانتے ہیں کہ یہ ندی آنکھوں کی کب سوکھتی ہے جب انسان اندر سے مرتا ہے کیونکہ وہ اتنا کچھ جھیل چکا ہوتا ہے کہ ایک وقت پر اسے کسی کی بھی کسی نفرت کا احساس بھی نہیں رہتا لیکن ان لوگوں کو یہ نہیں پتا کہ اس ساری تھکن کو دور کرنے اس اندر کو زندہ کرنے کے لیے بس ایک دوا کی ضرورت ہے وہ دوا جو کسی فارمیسی یا حکیم سے نہیں ملتی نصیب سے ملتی ہے وہ دوا محبت ہے وہ محبت جو ہر کامیاب انسان کا سرمایہ ہے ہر کامیاب انسان کی دولت شہرت اور عزت ہے اور اس بات کا احساس آج مجھے سر آپ کے اس ایک لقمے نے دلایا کہ میں ایک کامیاب دولت مند اور با عزت انسان ہوں کیونکہ مجھے جو سرمایہ عطا ہوا وہ سرمائیہ محبت ہے اب کہنے لگا کہ سر میں چھے ماہ بعد اپنے گھر جاتا ہوں ماں باپ بہن بھائیوں کے درمیان اور جب ان سے مل کر ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتا ہوں تو جو سکون جو محبت اس وقت مجھے اپنے گھر والوں سے ملتی ہے آج آپ سے وہی ملا قرض دار کردیا آپ نے سر مجھے بنا کچھ دیے بھی سب کچھ دے کر بس سر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!! سلامت رہیں۔۔۔ تو آپ دوستوں سے اپنے پیاروں سے یہ سب شئیر کرنے کا مقصد یہ سب لکھنے کا مقصد بس اتنا ہی ہے کہ اس جسم کے آنگن میں خواہشات کے بہت بڑے گڑھے دفن ہوتے ہیں کو ہر وقت اپنا منہ کھولتے ہیں اور انہی گڑھوں کا منہ بھرنے کے لیے ہم اپنے اخلاق کے ساتھ اپنے اندر کی انس اور دوسروں کے جذبات اور احساسات کو بھی انہی گڑھوں کو بھرنے کی نظر کر دیتے ہیں نہیں کرتے اس بات کی پرواہ ہم کہ محبت ہماری شفقت کے چند لمحے کسی کی زندگی بن سکتے ہیں تو تھوڑا خیال کیجئے یا لازم ہے کہ پیدا احساس کیجئے اور جو ہے ساتھ اس کی قدر کیجئے کیونکہ دردِ انسانیت سے بڑی عبادت نہیں کوئی۔۔۔۔!!!!!

کسی شاعر نے کہا ہے

کہ سامنے ہے جو اسے لوگ برا کہتے ہیں

(جس کو دیکھا ہی نہیں اس کو خدا کہتے ہیں (نوری جی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں